Ahsan-ut-Tafaseer - Az-Zukhruf : 81
قُلْ اِنْ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ١ۖۗ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ
قُلْ : کہہ دیجئے اِنْ : اگر كَانَ للرَّحْمٰنِ : ہے رحمن کے لیے وَلَدٌ : کوئی بیٹا۔ اولاد فَاَنَا : تو میں اَوَّلُ الْعٰبِدِيْنَ : سب سے پہلا ہوں عبادت کرنے والوں میں
کہہ دو کہ اگر خدا کے اولاد ہو تو میں (سب سے) پہلے (اس کی) عبادت کرنے والا ہوں
81۔ 84۔ علاوہ ان فرشتوں کے جو ہر آدمی کے ساتھ ہر طرح کی آفت سے حفاظت کرنے کے لئے مقرر ہیں جن کا ذکر سورة رعد میں گزر چکا ہے۔ یہ دو فرشتے نیکی اور بدی لکھنے کی غرض سے ہر شخص کے ساتھ تعینات ہیں۔ صحیحین 1 ؎ کی اور حدیث کی کتابوں میں ابوہریرہ ؓ کی روایت سے جو ایک حدیث مشہور ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا آدمی کے دل میں جو وسوسہ آتا ہے جب تک اس وسوسہ کے موافق آدمی کوئی بات منہ سے نہ نکالے یا ہاتھ پیر سے کوئی کام نہ کرے تو وسوسہ معاف ہے اس صحیح حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سوا دل کے وسوسہ کے اور جو کچھ زبان سے نکلے یا ہاتھ پیروں سے کیا جائے وہ سب لکھا جاتا ہے بعض مفسروں نے حضرت عبد اللہ بن عباس 2 ؎ سے ایک روایت بیان کی ہے کہ سوا ان باتوں اور کاموں کے جن سے ثواب اور عذاب متعلق ہے اور عام باتیں دنیا کے کام کی نامہ اعمال میں نہیں لکھی جاتیں لیکن علی بن طلحہ کی سند سے صحیح قول حضرت عبد اللہ بن عباس کا یہی 3 ؎ ہے کہ پہلے سب کچھ لکھا جاتا ہے اور پھر عذاب وثواب کے قابل باتیں اور کام چھانٹ لئے جاتے ہیں مسند برار 4 ؎ وغیرہ میں جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ پاخانہ کے وقت اور ناپاکی کے وقت یہ کراماً کا بتیں فرشتے انسان سے ذرا سرک کر الگ ہوجاتے ہیں نہیں تو ہر حالت میں آدمی کے ساتھ رہتے ہیں اور سارے دن کا نامہ اعمال جو لکھ کر یہ فرشتے لے جاتے ہیں اگر اس نامہ اعمال میں کہیں استغفار ہو تو اللہ تعالیٰ اس دن کے سب گناہ معاف کردیتا ہے اگرچہ بعض علما نے لکھا ہے کہ دل کا وسوسہ جب تک محض وسوسہ ہے تو معاف ہے لیکن اس وسوسہ پر جب دل مضبوط ہوجائے تو اس کو عزم کہتے ہیں اور دل کے عزم پر شریعت میں مواخذہ ہے لیکن صحیح مذہب یہ ہے کہ دل کا عزم اگر ان مسئلوں کے خاص دل سے اعتقاد کے طور پر متعلق ہیں مثلاً دل میں خدا کی وحدانیت کا یقین کرنا آنحضرت کی رسالت کا یقین کرنا ان مسئلوں کا دلی شک بلا شک قابل مواخذہ ہے کیونکہ کفر و شرک کا اعتقاد اسی کا نام ہے ہاں فقط ہاتھ پیروں کے یا زبان کے متعلق جو مسئلے ہیں ان میں ہر طرح کا دل کا وسوسہ صحیح حدیثوں کی رو سے معاف ہے ان آیتوں میں یہ جو فرمایا کہ اے رسول اللہ کے ان مشرکوں سے کہہ دو کہ اگر اللہ کے اولاد ہوتی تو سب سے پہلے میں اس اولاد کو پوجتا صحیح معنی اس کے یہی ہیں کہ جب میں اللہ کا رسول ہو کر سوا اللہ کے کسی کی عبادت نہیں کرتا اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک کرنے کی وحی مجھ کو نہیں آئی تو اس سے معلوم ہوگیا کہ اللہ کا کوئی شریک اور اولاد نہیں ہے پھر تم لوگ بغیر سند کے اللہ کا شریک اور اللہ کی اولاد کیونکر ٹھہراتے ہو۔ اب آگے فرمایا کہ اللہ ان مشرکوں سے پاک ہے اور ایسا صاحب تخت بادشاہ ہے کہ آسمان و زمین میں اسی کی بادشاہت ہے نہ کوئی اسکا ولی عہد ہے نہ وزیر پھر اپنے رسول کو مخاطب ٹھہرا کر فرمایا کہ سزا کا وقت مقررہ آنے تک ان مشرکوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے کیونکہ مجبور کرکے کسی کو راہ راست پر لانا اللہ کو منظور نہیں ہے پھر فرمایا اگرچہ یہ مشرک آسمان پر رہنے کے سبب سے فرشتوں کی یہاں تک عزت کرتے ہیں کہ فرشتوں کی مورتوں کی پوجا کرتے ہیں لیکن اللہ کی وہ شان ہے کہ آسمان و زمین میں اس کے سوا کوئی دوسرا بندگی کے قابل نہیں ہے کیونکہ وہ سب کا خالق ہے اور سب اس کی مخلوق اس کی حکمت اور اس کا علم ایسیوسیع ہیں کہ کسی انتظام میں وہ اولاد کی مدد کا محتاج نہیں۔ (1 ؎ صحیح مسلم باب تجاوز اللہ عن حدیث النفس الخ ص 78 ج 1۔ ) (2 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 103 ج 6 و تفسیر ابن کثیر ص 224 ج 4۔ ) (3 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 103 ج 6 و تفسیر ابن کثیر ص 224 ج 4۔ ) (4 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 323 ج 5۔ )
Top