Urwatul-Wusqaa - Az-Zukhruf : 81
قُلْ اِنْ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ١ۖۗ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ
قُلْ : کہہ دیجئے اِنْ : اگر كَانَ للرَّحْمٰنِ : ہے رحمن کے لیے وَلَدٌ : کوئی بیٹا۔ اولاد فَاَنَا : تو میں اَوَّلُ الْعٰبِدِيْنَ : سب سے پہلا ہوں عبادت کرنے والوں میں
(اے پیغمبر اسلام ! ) آپ ﷺ کہہ دیجئے کہ اگر رحمن کے اولاد ہو تو میں سب سے پہلے اس رحمن کا انکار کرنے والا ہوں
کیا ولدیت الوہیت کے منافی نہیں ہے ؟ بلاشبہ منافی ہے 81 ؎ بلاشبہ ولدیت الوہیت کے منافی ہے یعنی جس کی اولاد ہوگی وہ الٰہ نہیں ہوسکتا۔ یہ عیسائیوں کے لیے ایک تحدی اور چیلنج ہے اور اسی طرح قریش مکہ کے لیے بھی کیونکہ قریش مکہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی لڑکیاں قرار دیتے تھے اور انصاری عیسیٰ (علیہ السلام) کو ابن اللہ مانتے اور کہتے ہیں اس پر گویا تعجب کیا جارہا ہے کہ ان لوگوں کی کیسی مت ماری گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت کو بھی مانتے ہیں اور اس کی اولاد بھی قراردیتے ہیں جیسا کہ یہ بات اصولی طور پر تسلیم شدہ ہے کہ اللہ کی کوئی اولاد نہیں ہے اس لیے کہ اولاد کا ہونا الوہتے کے منافی ہے جس طرح صاحب اولاد کے لیے بیوی کا ہونا لازم ہے۔ اگر وہ مرد ہے اور اسی طرح صاحب اولاد کے لیے خاوند کا ہونا ضروری ہے اگر وہ عورت ہے جس طرح والد کے لیے ضروری ہے کہ کوئی اس کا والد ہو اسی طرح ولد کے لیے ضروری ہے کہ کوئی اس کا والد ہو اس لیے کہ جو چیزیں لازم وملزوم ہیں ان میں اگر ایک کو ہٹا دیا جائے تو دوسری خود بخود معدوم ہوجائے گی۔ مثلاً انسان کو دیکھنے کے لیے لازم ہے کہ اس کے پاس آنکھ ہو اور روشنی بھی اگر ان دونوں میں سے ایک کو ہٹادیا جائے تو دوسری خود بخود معدوم ہوجائے گی اگر کسی انسان کے آنکھ نہیں تو کچھ نظر نہیں آئے گا لیکن آنکھ موجود ہو اور روشنی بالکل موجود نہ ہو تو بھی کچھ نظر نہیں آئے گا۔ اولاد الوہیت کے منافی ہے گویا جس کو آپ الٰہ کہتے ہیں اس کے لیے اولاد قرار دینا اپنے دعویٰ کی خود تردید کرنا ہے۔ لیکن تعجب ہے کہ ہمارے جتنے ترجمے اردو میں کیے گئے سب نے ترجمہ یہی کیا ہے کہ ” اگر واقعی رحمن کی اولاد ہوتی تو سب سے پہلے عبادت کرنے والا میں ہوتا “۔ مثلاً : ” کہ اگر ہوتی واسطے رحمن کے اولاد پس میں پہلا عبادت کرنے والا ہوں “۔ (شاہ رفیع الدین (رح)) ” آپ کہہ دیجیے کہ اگر خدائے رحمن کے اولاد ہو تو سب سے اول اس کی عبادت کرنے والا میں ہوں “ مجھ کو تمہاری طرح حق بات کے ماننے سے ابائو و انکار نہیں تم اگر ثابت کردو تو سب سے اول اس کو میں مانوں۔ (شاہ عبدالقادر (رح) ) ” کہہ دو کہ اگر خدائے رحمن کی کوئی اولاد ہو تو سب سے پہلے عبادت کرنے والا میں ہوتا۔ “ میرا کسی کو خدا کی اولاد نہ ماننا اور جنہیں تم اس کی اولاد قرار دے رہے ہو ان کی عبادت سے انکار کرنا کسی ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر نہیں…… میں تو اس کا وفادار بندہ ہوں اگر بالفرض حقیقت یہی ہوتی تو تم سے پہلے میں بندگی کے لیے سرجھکا دیتا۔ (تفہیم القرآن) ” آپ کہہ دیجئے کہ اگر (خدائے) رحمن کے اولاد ہو تو سب سے اول عبادت کرنے والا تو میں ہوں۔ “ اس لیے کہ خدا زادہ بھی لامحالہ تمام اوصاف اولہیت ومعبودیت ہی سے متصف ہوگا۔ فقہائے یہیں سے مسئلہ نکالا ہے کہ امر محال کا فرض کرنا اور پھر اس پر احکام کا ترتیب دونوں بالکل جائز ہیں۔ (ماجدی) ” تو کہہ اگر ہو رحمن کے واسطے اولاد تو میں سب سے پہلے پوجوں۔ “ اگر صحیح دلائل سے خدا کی اولاد کا جواب ثابت ہوجاتا تو میں اسے ضرورمان لیتا اور جب اس کو خدا کی اولاد مان لوں تو چونکہ خدا کی اولاد بھی خدا ہی ہونی چاہیے اور خدا مستحق عبادت ہے اس لیے میں اس کی عبادت بھی کروں۔ “ (معارف القرآن) ” تو کہہ اگر ہو رحمن کے واسطے اولاد تو میں سب سے پہلے پوجوں “ کہہ دیجئے کہ اگر بفرض محال خدا کے اولاد ہو تو پہلا شخص میں ہوں جو اس کی اولاد کی پرستش کرے کیونکہ میں دنیا میں سب سے زیادہ خدا کی عبادت کرنے والا ہوں اور جس کو جس قدر علاقہ خدا کے ساتھ ہوگا اسی نسبت سے اس کی اولاد کے ساتھ ہونا چاہیے۔ (عثمانی) ” تم فرمائو بفرض محال رحمن کے کوئی بچہ ہوتا تو سب سے پہلے میں پوجتا “ لیکن اس کے بچہ نہیں اور اس کے لیے اولاد محال ہے یہ نفی ولد میں مبالغہ ہے۔ (سید محمد نعیم الدین) ” آپ فرمائیے (بفرض محال) اگر رحمن کے کوئی بچہ ہوتا تو میں سب سے پہلے اس کا پجاری ہوتا۔ “ اگر اس کا کوئی بیٹا ہوتا تو کیا میں اس کے سامنے بےساختہ طور پر سر بسجود نہ ہوجاتا۔ (ضیاء القرآن) لیکن ہم نے اوپر ترجمہ کیا ہے ” (اے پیغمبر اسلام ﷺ آپ ﷺ کہہ دیجئے کہ اگر رحمن کے اولاد ہو تو میں سب سے پہلے (اس رحمن) کا انکار کرنے والا ہوں۔ “ (عزوۃ الوثقی آیت زیر نظر) ہم نے یہ اختلاف خواہ مخواہ نہیں کیا بلکہ اس کی وجہ موجود ہے اور وہ درج ذیل ہے۔ (1) (اول العابدین ای ماکان فانا اول الانفین وھما لغتان رجل عابد وعبدً ویقال اول العابدین الجاہدین من عبد یعبد) یعنی عابدین سے انفین مراد ہے یعنی میں سب سے پہلے اس سے انکار کرتا ہوں اور (ان کان ماکان) کے معنوں میں ہے اور اس طرح عابدین اس جگہ انکار کرنے والا ہوں کے معنوں میں ہے اور بعضوں نے کہا ہے کہ (العابدین) عبد یعبد سے نہیں بلکہ یعبد سے ہے جس کے معنی انکار کرنے کے ہیں۔ (بخاری کتاب التفسیر پارہ 20 سورة حم الزخرف) (2) اور اس کی شرح میں فتح الباری میں ہے کہ : (3) (عبد فی انفہ عبدۃ ای انفۃ شدیدۃ) یہ غلام ناک بھوک بہت چڑھاتا اور انکار کرتا ہے۔ (اساس البلاغہ) (4) عبد فرح کے وزن پر انکار کرنے اور ناک بھوں چڑھانے کے معنوں میں آتا ہے۔ (قاموس) (5) عبد عبداً مثل غضب وزنا ومعنا والا سم العبدۃ مثل الانفۃ (مصباح المنیر) (6) عبدمن باب طرب ای غضب وانف والاسم العبدۃ وقولہ تعالیٰ فانا اول العابدین من ھذا (مختار الصحاح) (7) امام ابن جریر نے اس پر ایک طویل روایت بھی پیش کی ہے جس کا بعض حصہ درج ذیل ہے : وقد حدتنی یونس بن عبدالاعلیٰ قال اخبرنا ابن وھب ثنی قال : ابن ابی ذئب عن ابی قسیط عن بعجۃ بن زید الجھنی ان امراۃ منھم دخلت علی زوجھا وھورجل منھم ایضاً فولدت لہ فی ستۃ اشھر فذکر ذلک لعثمان بن عفان ؓ فامر بھا ان ترجم فدخل علیہ علی بن ابی طالب ؓ فقال ان اللہ تبارک وتعالیٰ یقول فی کتابۃ (وحملہ فصالحہ ثلاثون شھرا) وقال (وفصالہ عامین) قال فو اللہ ماعبد عثمان ان بعث الیھا ترد۔ قال یونس ، قال ابن وھب : عبداستنکف۔ (8) یہ روایت بھی معروف کتب لغات میں بیان کی گئی ہے جس سے ان معنوں کی تصدیق ہوتی ہے۔ وفی حدیث علی قبل لہ انت امرت بقتل عثمان ؓ اوعنت علی قتلہ نعبد وضمد ای غضب غضبا انفۃ یقال عبد بالکسر یعبد بالفتح عبدبالتحریک فھو عابد ومنہ حدیثہ الاخر عبدت فصحت ای انفت فسکت (فائق ، نہایہ ، مجمع) (9) فتح الباری میں فرزوق کا ایک شعر بھی اس کی تصدیق میں پیش کیا گیا ہے ؎ اولئک قومی ان ھجونی ھجوتھم واعبد ان اھجر کلیبا بدارم اور اسی میں اعبدامتنع کے طور پر وارد ہوا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ؎ الا ھویت ام الولید واصبحت لما ابصرت فی الر اس منی تعبد وقال الاخر منی ما یشا ذوالرد یصرم خلیلہ ویعبد علیہ لا مجالۃ ظالماً (10) ہم واضح طور پر یہ کہہ دینا چاہتے ہیں کہ ہر ممکن شرط کی جزاء ممکن اور ناممکن کی محال ہوتی ہے اور اس جگہ ظاہر ہے کہ دوسری صورت واقع ہے کہ شرط محال ہے یعنی ولد نہیں لہٰذا اس کی جزاء بھی محال ہے یعنذی اس کی عبادت یا پوجا نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی تصور کال جاسکتا ہے اور ناممکن بات کو ممکن نہیں بنایا جاسکتا محال ہی سمجھا جاسکتا ہے۔ پیر کرم شاہ صاحب نے پہلی تفسیر درج کرنے کے بعد آخر میں تسلیم کیا ہے کہ ” اس آیت کا یہ مفہوم بھی بیان کیا گیا ہے کہ یہاں (ان) شرطیہ نہیں بلکہ نافیہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کا کوئی بیٹا نہیں (عابدین) کا معنی انفین ہے یعنی میں اس کذب وافتراء کو تسلیم کرنے سے سب سے پہلے انکار کرتا ہوں اور اس کے خلاف علم بغاوت بلند کرتا ہوں قال الجر ھری وقال ابوعمر قولہ فانا اول العابدین من الانف والغضب۔ قال ابن الاعرابی فانا اول العابدین ای الغضاب الانفین (قرطبی) “ (ضیاء القرآن سورة الزخرف) لیکن اس سے بہت ہپلے 1935 ء میں میرے شیخ حافظ عنایت اللہ اثری وزیر آبادی مرحوم ومغفور نے ” القول المختار “ میں اس کی تفصیل بیان کردی تھی جیسا کہ ہم نے اوپر تفسیر میں بیان کردیا ہے۔ پیر کرم شاہ صاحب کو 61 ء میں کچھ کتب بھیرہ روانہ کی گئی تھیں اور ان کتب میں آیات للسائلین ، عیون زمزم ، البیان المختار اور القول المختار بھی موجود تھیں اور کرم شاہ صاحب نے اس تفسیر کی پہلی جلد 1965 ء میں شائع کی۔ اوپر جو تراجم ہم نے درج کیے ہیں ان کو محض اس لیے درج کیا ہے کہ پہلی بار جن صاحب نے ترجمہ کیا جو اس میں ہوگیا اس کو آنکھیں بند کرکے سب کرتے آئے اور کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ ہاں ! جہاں کسی کی کوئی اپنی ضرورت ہوئی اس میں غوروفکر کرکے اگر کچھ کہا بھی گیا تو صرف اور صرف اپنی ضرورت کو پورا کیا گیا اور پھر جب کوئی جس فکر سے وابستہ ہوا اس فکر کی ترجمانی کرتا رہا اور قرآن کریم کے مفہوم کو ایر پھیر کر اپنی فکر کی طرف لانے کی ساری کوشش کی گئی اور فی زمانہ اس کو فقط مردوں کی بخشش کے لیے خاص کردیا گیا اور اگر کسی کو قسم کی ضرورت پڑی تو اس کو استعمال کرلیا یا برکت حاصل کرنے کی خاطر اس کی چند آیتیں تلاوت کرکے اپنے سینے پر پھونکتے ہوئے ہاتھ منہ پر پھیر لیے اور سمجھے کہ ہم نے اسلام کا ایک بہت بڑا کام کرلیا۔ لاریب قرآن کریم کی تلاوت اسلام کا ایک اہم کام ہے لیکن اس وقت جب اس کو سمجھ کر اس کی تعلیمات کے مطابق عملی زندگی کو درست کیا جائے اور اس کے احکامات کو دل وجان سے قبول کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطام فرمائے اور ہم اللہ کی اس کتاب پر براہ راست اس کی اپنی روشنی میں اور نبی اعظم وآخر ﷺ کی دی ہوئی راہنمائی میں مطالعہ کریں اور اپنے اس ساڑھے پانچ یا چھ فٹ ڈھانچہ کی اصلاح اس کے احکام کے مطابق کریں۔
Top