Maarif-ul-Quran - Az-Zukhruf : 81
قُلْ اِنْ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ١ۖۗ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ
قُلْ : کہہ دیجئے اِنْ : اگر كَانَ للرَّحْمٰنِ : ہے رحمن کے لیے وَلَدٌ : کوئی بیٹا۔ اولاد فَاَنَا : تو میں اَوَّلُ الْعٰبِدِيْنَ : سب سے پہلا ہوں عبادت کرنے والوں میں
تو کہہ اگر ہو رحمن کے واسطے اولاد تو میں سب سے پہلے پوجوں
معارف و مسائل
(آیت) قُلْ اِنْ كَان للرَّحْمٰنِ وَلَدٌ ڰ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِيْنَ (اگر خدائے رحمن کی کوئی اولاد ہوتی تو میں سب سے پہلے اس کی عبادت کرتا) اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ معاذ اللہ خدا کی اولاد ہونے کا کسی بھی درجہ میں کوئی امکان ہے، بلکہ مقصد دراصل یہ بتانا ہے کہ میں تمہارے عقائد کا انکار کسی عناد یا ہٹ دھرمی سے نہیں کر رہا ہوں بلکہ دلائل کی وجہ سے کر رہا ہوں، اگر صحیح دلائل سے خدا کی اولاد کا وجود ثابت ہوجاتا تو میں اسے ضرور مان لیتا، لیکن عقل ونقل کی ہر دلیل اس کی تردید کرتی ہے، اس لئے ماننے کا کوئی سوال نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہل باطل کے ساتھ مباحثہ کے وقت اپنی حق پسندی جتلانے کے لئے یہ کہنا جائز اور مناسب ہے کہ اگر تمہارا دعویٰ صحیح دلائل کے ساتھ ثابت ہوتا تو میں اسے تسلیم کرلیتا، کیونکہ بعض اوقات اس انداز کلام سے مخالف کے دل میں ایسی نرمی پیدا ہو سکتی ہے جو اسے قبول حق پر آمادہ کر دے۔
Top