Al-Quran-al-Kareem - Az-Zukhruf : 81
قُلْ اِنْ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ١ۖۗ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ
قُلْ : کہہ دیجئے اِنْ : اگر كَانَ للرَّحْمٰنِ : ہے رحمن کے لیے وَلَدٌ : کوئی بیٹا۔ اولاد فَاَنَا : تو میں اَوَّلُ الْعٰبِدِيْنَ : سب سے پہلا ہوں عبادت کرنے والوں میں
کہہ دے اگر رحمان کی کوئی اولاد ہو تو میں سب سے پہلے عبادت کرنے والا ہوں۔
قل ان کان للرحمن ولد…: کفار فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے، پچھلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس کا رد فرمایا۔ اب رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا کہ ان سے کہہ دیں کہ اگر رحمان کی کوئی اولاد ہو تو میں سب سے پہلے اس کی عبادت کرنے والا ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ میرا اللہ تعالیٰ کی اولاد نہ ماننا اور جنھیں تم اللہ کی اولاد قرار دیتے ہو ان کی عبادت سے انکار کسی ضد یا ہٹ دھرمی کی بنا پر نہیں، بلکہا س وجہ سے ہے کہ ممکن ہی نہیں کہ اس ذات پاک کی اولاد ہو جس کا نام رحمان ہے۔ تفصیل کے لئے سورة مریم کی آیات (88 تا 98) کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر رحمان کی کوئی اولاد ہو، جیسا کہ کفار کہتے ہیں، تو سب سے پہلے اس اولاد کی عبادت کرنے والا میں ہوں، کیونکہ میرا اس کے ساتھ بندگی کا تعلق سب سے زیادہ ہے، جیسا کہ بادشاہ کے نوکر چاکر بادشاہ کی اولاد کی تعظیم ان کے والد کی تعظیم کی وجہ سے کرتے ہیں، لیکن رحمان کی اولاد ہے ہی نہیں، اس لئے میں اللہ واحد کے سوا کسی کی عبادت کرنے والا نہیں۔ یاد رہے کہ یہ جملہ شرطیہ ہے، اس میں شرط کا وجود بلکہ اس کا امکان بھی ضروری نہیں ہوتا۔ بعض اوقات ناممکن چیز کو بھی بفرض محال شرط کے طور پر ذکر کردیا جاتا ہے، جیسا کہ فرمایا :(لو اراد اللہ ان یتخذ ولذدا لاصطفی مما یخلق مایشآء سبحنہ ھو اللہ الواحد القھار) (الزمر : 3)”اگر اللہ چاہتا کہ (کسی کو) اولاد بنئاے تو ان میں سے جنھیں وہ پیدا کرتا ہے جسے چاہتا ضرور چن لیتا، وہ پاک ہے۔ وہ تو اللہ ہے، جو اکیلا ہے، بہت غلبے والا ہے۔“ اور فرمایا :(لوکان فیھمآ الھۃ الا اللہ لفسدتا) (الانبیائ : 22)”اگر ان دونوں میں اللہ کے سوا کوئی اور معبود ہوتے تو وہ دونوں ضرور بگڑ جاتے۔
Top