Tafseer-e-Saadi - Az-Zukhruf : 81
قُلْ اِنْ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ١ۖۗ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ
قُلْ : کہہ دیجئے اِنْ : اگر كَانَ للرَّحْمٰنِ : ہے رحمن کے لیے وَلَدٌ : کوئی بیٹا۔ اولاد فَاَنَا : تو میں اَوَّلُ الْعٰبِدِيْنَ : سب سے پہلا ہوں عبادت کرنے والوں میں
کہہ دو کہ اگر خدا کے اولاد ہو تو میں (سب سے) پہلے (اس کی) عبادت کرنے والا ہوں
آیت 81 اے رسول مکرم ! ان لوگوں سے کہہ دیجیے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دے رکھا ہے، حالانکہ وہ اکیلا اور بےنیاز ہے جس نے کوئی بیوی بنائی نہ بیٹا اور نہ اس کا کوئی ہم سر ہی ہے (آیت) ” کہہ دیجیے : اگر رحمٰن کے اولاد ہوتی تو میں سب سے پہلے عبادت کرنے والا ہوتا۔ “ اس بیٹے کی کیونکہ بیٹا اپنے باپ کا جزو ہوتا ہے میں تمام مخلوق میں ان تمام اوامر پر عمل کرنے میں سب سے آگے ہوں جو اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں مگر (تم دیکھ رہے ہو کہ) میں اس کا انکار کرنے والا پہلا شخص ہوں اور اس کی نفی کرنے میں سب سے زیادہ سخت ہوں، پس اس سے اس مشرکانہ قول کا بطلان ثابت ہوگیا۔ جو لوگ انبیائے کرام کے احوال کو جانتے ہیں اور انہیں یہ معلوم ہے کہ انبیاء کامل ترین مخلوق ہیں، ہر بھلائی پر عمل کرنے اور اس کی تکمیل کے لئے وہ پیش پیش رہتے ہیں اور ہر برائی کو ترک کرنے، اس کا انکار کرنے اور اس سے دور رہنے میں، سب سے آگے ہیں تو ایسے لوگوں کے نزدیک یہ ایک بہت بڑی دلیل ہے۔ پس اگر رحمان کا کوئی بیٹا ہوتا تو محمد بن عبداللہ ﷺ جو سب سے افضل رسول ہیں، اولی نشخص ہوتے جو اس کی عبادت کرتے اور اس کی عبادت کرنے میں مشرکین آپ پر کبھی سبقت نہ لے جاسکتے۔ آیت کریمہ میں اس معنی کا احتمال ہے کہ اگر اللہ رحمان کی کوئی اولاد ہوتی تو میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا اولین شخص ہوتا اور اللہ تعالیٰ کے لئے میری عبادت یہ ہے کہ اس نے جس چیز کا اثبات کیا ہے میں اس کا اثبات کرتا ہوں اور جس چیز کی اس نے نفی کی ہے میں اس کی نفی کرتا ہوں، پس یہ قولی و اعتقادی عبادت ہے۔ اس سے لازم آتا ہے کہ اگر یہ بات حق ہوتی تو میں پہلا شخص ہوتا جو اس کا اثبات کرتا، لہٰذا اس سے اور عقل و نقل کے اعتبار سے مشرکین کے دعوے کا بطلان اور فساد معلوم ہوگیا۔ (آیت) ” یہ جو کچھ بیان کرتے ہیں، آسمانوں اور زمین کا رب (اور) عرش عظیم کا رب اس سے پاک ہے۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ شریک، معاون و مددگار اور اولاد وغیرہ ان تمام چیزوں سے پاک اور منزہ ہے جو مشرکین اس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ (فذرھم یخوضوا ویلعبوا) ” پس آپ انہیں چھوڑ دیں کہ وہ بےہودہ کھیل کود میں لگے رہیں۔ “ یعنی یہ باطل میں مبتلا ہو کر محال امور سے کھیلتے ہیں، ان کے علوم ضرر رساں ہیں ان میں کوئی نفع نہیں، وہ ایسے علوم میں بحث کرتے اور ان میں مشغول ہوتے ہیں جن کے ذریعے سے یہ لوگ حق اور دعوت کی مخالفت کرتے ہیں جو انبیاء ومرسلین لے کر آئے ہیں۔ ان کے اعمال محض لہو و لعب ہیں جو نفوس کا تزکیہ کرتے ہیں نہ ان سے معارف حاصل ہوتے ہیں۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے انہیں اس انجام کی وعید سنائی ہے جس کا قیامت کے روز انہیں سامنا کرنا ہے۔ چناچہ فرمایا : (آیت) ” حتی کہ جس دن کا ان سے وعدہ کیا جاتا وہ اس کو دیکھ لیں۔ “ تب انہیں معلوم ہوگا کہ انہیں اس میں کیا حاصل ہوا کہ وہ دائمی بدبختی اور ہمیشہ رہنے والے عذاب میں پھنس گئے ہیں۔
Top