بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Haaqqa : 1
اَلْحَآقَّةُۙ
اَلْحَآقَّةُ : سچ مچ ہونیوالی (قیامت)
سچ مچ ہونیوالی
1۔ 12۔ قیامت کی جس سزا و جزا کا ذکر قرآن و حدیث میں ہے قیامت کے دن وہ سزا و جزا سب کی آنکھوں کے سامنے آجائے گی اور پھر اس کا کوئی منکر باقی نہ رہے گا سب اس کا حق ہونا مان لیں گے اس لئے قیامت کا نام حاقہ ہے جس کے معنی حق ثابت ہونے والی۔ حضرت نوح سے لے کر حضرت موسیٰ تک جتنی قوموں نے قیامت کی سزا و جزا اور اللہ کے رسولوں کو جھٹلایا تھا اور اس جرم میں طرح طرح کے عذابوں سے وہ قومیں ہلاک ہوئی تھیں ان سب کا ذکر ان آیتوں میں فرمایا ہے تاکہ یہ قصے اس بات کی ایک یادگار اور نصیحت ہوجائیں کہ اب بھی جو لوگ ان لوگوں کے سے کام کریں گے قیامت کو قیامت کے عذاب کو اللہ کے رسول کو جھٹلائیں گے اللہ کے حکم کی نافرمانی کریں گے ان کا بھی وہی انجام ہوگا جو پچھلے سرکش لوگوں کا ہوچکا ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ان قصوں کے انجام کے اثر کو سوچا کہ نافائدہ کی بات ہے اسی واسطے حضرت نوح کے قصہ میں فرمایا کہ یہ قصہ ایسے لوگوں کے حق میں نصیحت نہیں جو لوگ نصحیت کی بات کو اس کان سے سن کر اس کان سے اڑا دیتے ہیں بلکہ یہ قصہ ایسے لوگوں کے حق میں نصیحت ہے جو نصیحت کی بات کو سن کر اس نصیحت کو یاد رکھتے ہیں اور اس نصیحت کے موافق عمل کرتے ہیں۔ ترمذی 1 ؎‘ ابن ماجہ ‘ مسند امام احمد میں حضرت ابودرداء سے بسند معتبر روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک دن آنحضرت ﷺ نے قیامت کے قریب کچھ بےدینی کی باتیں جوں ہوں گی ان کا ذکر فرما کر یہ فرمایا کہ ایسی باتیں دنیا میں اس وقت ہوں گی جب علم دین دنیا سے اٹھ جائے گا اس پر زیاد بن لبید انصاری نے کہا ہم نے قرآن پڑھا اور اپنی اولاد کو پڑھایا اور ہماری اولاد اپنی اولاد کو پڑھائے گی یہی سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا پھر علم دین اور کلام الٰہی کی نصیحت کا اثر دنیا سے کیونکر اٹھ جائے گا آپ نے اس کا جواب دیا کہ زیاد کیا تم نے یہود اور نصاریٰ کو توراۃ اور انجیل پڑھتے نہیں دیکھا مگر جو نصحت توراۃ اور انجیل میں ہے اس کے موافق وہ لوگ عمل نہیں کرتے۔ یہی حال آخری زمانہ میں امت محمدیہ کا ہوگا جس قدر پڑھیں گے اس قدر عمل نہ کریں گے۔ ابو داؤود 1 ؎‘ ابن ماجہ ‘ مسند امام احمد میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص علم دین کو دنیا کی عزت کے لئے حاصل کرے گا اس کا جنت میں داخل ہونا تو درکنار قیامت کے دن جنت کی خوشبو تک ایسے شخص کی ناک میں نہ آئے گی۔ حاکم 2 ؎ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے غرض ان آیتوں اور حدیثوں اور اسی قسم کی اور بہت سی حدیثوں کا حاصل مطلب یہ ہے کہ قرآن اور حدیث کی نصیحت ان ہی لوگوں کے کام آئے گی جن کے دل پر اس نصیحت کا اثر ہوتا ہے جس اثر کے سبب سے وہ لوگ اس نصیحت کے موافق خالص دل سے ثواب آخرت کی نیت سے عمل کرتے ہیں اس زمانہ کے قریش کی طرح جو لوگ بالکل نصیحت قرآن و حدیث کے منکر ہیں یا جو لوگ اسلام منکر تو نہیں لیکن ان کا عمل خالص نیت سے نہیں ہے۔ دنیا کی کسی غرض کا اس عمل میں میل جول ہے یا بعض لوگ کسی خواہش نفسانی کے بعض وقت پابند ہو کر نصیحت خدا اور رسول پر عمل نہیں کرتے۔ یہ سب عادتیں اپنے اپنے درجہ کے موافق مواخذہ آخرت کی عادتیں ہیں اسی مطلب کے سمجھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں کے بعد ایسا ذکر فرمایا ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ بالکل منکروں کا انجام تو وہ ہے جو حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تک کے لوگوں کا بیان ہوا ہے اس کے بعد ایک انجام حشر کا ہے جس میں ذرہ ذرہ کا حساب ہونے والا ہے اور ہر طرح کی خلاف شریعت عادت کی سزا اس دن ہوگی۔ طافیہ کے معنی چنگھاڑ ‘ عاتیہ کے معنی حد سے زیادہ ‘ حسوما کے معنی پے درپے ‘ صرعیٰ کے معنی لاشیں ‘ اعجاز کے معنی درختوں کی جڑیں ‘ خاویہ کے معنی کھوکھلی ‘ موتفکات کے معنی قوم لوط کی الٹی ہوئی بستیاں ‘ رابیہ کے معنی سخت ‘ طغی الماء کے معنی قوم عاد کی ہوا کی طرح حد سے گزرا ہوا پانی ‘ معتبر مفسروں 3 ؎ نے لکھا ہے کہ دنیا کے اونچے اونچے پہاڑوں سے وہ پانی پندرہ گزر اونچا تھا۔ حملنا کم فی الجاریہ کے یہ معنی ہیں کہ تمہارے بڑوں کو کشتی میں بٹھا کر طوفان سے بچایا۔ اس وقت تم ان اپنے بڑوں کو پشت میں نطفہ کی حالت میں موجود تھے اور یہ اس لئے کیا گیا کہ پشت در پشت پچھلوں سے اگلے یہ طوفان کا قصہ اور قوموں کے اس طرح کے قصے سن کر عبرت پکڑیں ‘ یہ سب قصے کئی جگہ گزر چکے ہیں اس لئے پھر پہاں ان کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں خیال کی گئی۔ (1 ؎ جامع ترمذی باب ماجاء فی ذھاب العلم ص 105 ج 2۔ ) (1 ؎ ابو داؤود کتاب العلم۔ باب فی طلب العلم لغیر اللہ ج 2۔ ) (2 ؎ الترغبو والترہیب الترھیب من تعلم العلم لغیر وجہ اللہ ص 128 ج 1۔ ) (3 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 260 )
Top