بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ruh-ul-Quran - Al-Haaqqa : 1
اَلْحَآقَّةُۙ
اَلْحَآقَّةُ : سچ مچ ہونیوالی (قیامت)
وہ ثابت ہوچکنے والی
اَلَحَـآقَّـۃُ ۔ مَا اَلْحَـآقَّـۃُ ۔ وَمَـآ اَدْرَکَ مَا الْحَـآقَّـۃُ ۔ (الحآقۃ : 1 تا 3) (وہ ثابت ہوچکنے والی۔ کیا ہے وہ ثابت ہوچکنے والی۔ کیا جانو کہ کیا ہے وہ ثابت ہوچکنے والی۔ ) اَلَحَـآقَّـۃُ کا مفہوم اَلَحَـآقَّـۃُ … اس چیز کو کہتے ہیں جو خود حق اور ثابت ہو اور اسے بھی کہتے ہیں جو دوسری چیزوں کو حق ثابت کرنے والی ہو، ایسی چیز کو بھی کہتے ہیں جس کا وقوع عقلاً و اخلاقاً لازم ہو، جو بالکل اٹل اور قطعی ہو، یہ ایک ہی لفظ جملہ کے قائم مقام ہے، یہ ایسا مبتداء ہے جسے خبر کی حاجت نہیں کیونکہ اس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ مخاطب کی توجہ مبتداء پر مرکوز رکھی جائے۔ یہ قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ اور یہ نام بجائے خود اپنے وجود پر دلیل ہے۔ کوئی اسے تسلیم کرے یا نہ کرے اسے بہرحال واقع ہو کے رہنا ہے اور انسانی حالات کا مطالعہ اور اس کے نفسیات کی تشخیص یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ قیامت کا آنا اللہ تعالیٰ کی صفت عدل کے ظہور اور اخلاقی نکتہ نگاہ سے ضروری ہے۔ اور قرآن کریم میں جابجا اس کے دلائل دیئے گئے ہیں۔ مَا اَلْحَـآقَّـۃُ …کیا ہے وہ ہو کے رہنے والی۔ یہ اسلوبِ بیان قیامت کی عظمت، اہمیت اور وقوع کے لیے دلیل قاطع کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور یہ اسلوبِ بیان اس وقت اختیار کیا جاتا ہے جب خطاب ایسے لوگوں سے ہو جو سر سے پائوں تک غفلت میں ڈوبے ہوئے ہوں اور ہزار توجہ دلانے کے باوجود ہوش میں آنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ انہیں اس اسلوب سے باور کرایا جاتا ہے کہ تم قیامت کو مانو یا نہ مانو وہ تو آکے رہنے والی چیز ہے، اس کا وقوع میں آنا حد درجہ یقینی ہے۔ اور پھر اس کی عظمت اور اس کے وقوع کے یقینی ہونے کو مزید نمایاں کرنے کے لیے فرمایا کہ کیا ہے وہ ہو کے رہنے والی ؟۔ یعنی اس کی عظمت اور اہمیت کا اندازہ کون کرسکتا ہے۔ وَمَـآ اَدْرَکَ مَاالْحَـآقَّـۃُ … اور تم کیا جانو، وہ ہو کے رہنے والی چیز کیا ہے۔ یہ اسلوب اس وقت اختیار کیا جاتا ہے جب کہنے والا اپنی شخصیت کی پوری توانائی اور ہمدردی اور خیرخواہی کے تمام جذبات سے کام لیتے ہوئے کسی ایسی بات کی عظمت کو انتہا درجے تک نمایاں کردینا چاہتا ہے، سننے والے جس سے تکلیف دہ حد تک غفلت کا شکار ہوں اور یہ ہر زبان میں استعمال ہوتا ہے اور اس سے سننے والا اگر ہوش و خرد سے بالکل تہی دامن نہیں یا عصبیت نے اسے اندھا نہیں کردیا تو وہ کہنے والے کے دل کے سوز سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہتا اور کبھی اس کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ تمہیں جس بات کی طرف بلایا جارہا ہے وہ تمہاری زندگی میں فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ تم جن عقلی پیمانوں سے اسے جاننے کی کوشش کررہے ہو وہ ان پیمانوں سے ماورا چیز ہے۔ اقبال نے ایسے ہی احساسات سے معمور ہو کر یہ بات کہی ہے : اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں مگر تیرے تصور سے فزوں تر ہے وہ نظارہ پیشِ نظر آیت کریمہ میں بھی یہی فرمایا جارہا ہے کہ تمہیں آج اس کی دہشت اور اس کی بےپناہی کا اندازہ نہیں۔ لیکن تمہیں کیا خبر کہ اس کے برپا ہوجانے کے بعد انسانوں پر کیا گزرے گی اور جو آج نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کی تکذیب کررہے ہیں وہ کس اندوہناک صورتحال سے دوچار ہوں گے۔ قرآن کریم نے یہ اسلوبِ کلام متعدد جگہ اختیار کیا ہے۔ قیامت ہی کے حوالے سے سورة القارعہ اس کی بہترین مثال ہے۔
Top