بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Baseerat-e-Quran - Al-Haaqqa : 1
اَلْحَآقَّةُۙ
اَلْحَآقَّةُ : سچ مچ ہونیوالی (قیامت)
وہ ” حاقہ “ (ضرور واقع ہونے والی)
لغات القرآن۔ الحاقۃ۔ سچ مچ ہونے والی۔ یقینی۔ القارعۃ۔ کوٹنے والی۔ اھلکوا۔ ہلاک کئے گئے۔ الطاغیۃ۔ زلزلہ۔ صرصر۔ زبردست آندھی۔ عاتیۃ۔ قابو سے باہر۔ سبع لیال۔ سات رات۔ ثمینۃ آیام۔ آٹھ دن۔ حسوما۔ متواتر۔ مسلسل۔ صرعی۔ اوندھے پڑے ہوئے۔ اعجاز نخل ۔ تنے کھجور کے۔ خاویۃ۔ کھوکھلے۔ تشریح : قرآن کریم میں قیامت کے بتہ سے نام آئے ہیں ” حاقہ “ بھی قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ قیامت کفار کے لئے ایک ہولناک دن بھی ہے اس لئے اس کی طرف پوری توجہ دلانے کے لئے سوالیہ انداز اختیار فرمایا۔ حاقہ ایک ایسی سچائی ہے جس کا آنا اور واقع ہونا یقینی ہے۔ قیامت کے دن پر یقین رکھنے والا ذہنی پستی، اخلاقی بگاڑ اور گناہوں کی دلدل میں نہیں پھنس سکتا۔ آخرت کا یقین، انسان کے کردار کی بلندی اور اس کی نجات کی ضمانت ہے۔ جس قوم نے بھی آخرت اور قیامت کا انکار کیا اس نے اپنی دنیا کو اپنے ہاتھوں برباد کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی بہت زبردست اور ترقی یافتہ قوموں قوم عاد اور قوم ثمود کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے جب اللہ و رسول اور آخرت کو جھٹلایا اور نافرمانیوں کی انتہا کردی تو ان پر اس طرح عذاب آیا کہ آج وہ صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہیں۔ قوم عاد جس نے دنیا پر سیکڑوں سال بڑی شان سے حکومت کی۔ ہر طرف خوش حالی، سرسبزی و شادابی، تجارتی پھیلائو، مال و دولت کی ریل پیل، سونے چاندی کے برتنوں کا استعمال، اعلیٰ ترین رہائش گاہیں تھیں ان چیزوں نے انہیں غرور وتکبر کا مجسمہ بنا کر رکھ دیا تھا وہ کہتے تھے کہ ہم سے زیادہ طاقت ور کوئی نہیں ہے۔ لیکن ان کی ذہنی پستی اور کفرو شرک کا یہ حال تھا کہ وہ بےحقیقت معبودوں کو اپنا مشکل کشا مان کر اسن کے سامنے جھک کر اپنی مرادوں کو مانگتے تھے۔ عیاشی اور گناہوں کی زندگی اختیار کرنے کی وجہ سے وہ اخلاقی بگاڑ کی انتہاؤں تک پہنچ چکے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کی اصلاح کے لئے اپنے پیغمبر حضرت ہود (علیہ السلام) کو بھیجا۔ جنہوں نے نے غرور وتکبر اور گناہوں میں مبتلا قوم کو بتایا کہ اس کائنات میں ساری طاقت و قوت اللہ رب العالمین کی ہے۔ وہی اس کائنات کا خالق ومالک ہے۔ وہ اپنی ذات میں یکتا اور واحد ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک دن ایسا آنے والا ہے جب اس پورے جہان کو توڑ دیا جائے گا اور پھر میدان حشر میں اللہ کے سامنے حاضر ہو کر اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب دینا ہوگا۔ حضرت ہود (علیہ السلام) کی باتیں سن کر وہ مذاق اڑاتے اور ان کی اطاعت سے انکار کرتے۔ ان کو طرح طرح سے ستاتے۔ جب اس قوم نے نافرمانی کی انتہا کردی تب اللہ نے ان پر عذاب مسلط کردیا۔ سات رات اور آٹھ دن تک ایسی زبردست طوفانی ہوائیں بھیجیں جن سے ان کی بنیادوں کو اکھاڑ کر رکھ دیا۔ اس قوم اور اس کی ترقیات کو اس طرح مٹا دیا گیا کہ پھر کوئی چیز باقی نہ بچ سکی۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ بدھ کے دن سے اگلے بدھ کی شام تک ایک مسلسل طوفان تھا جس نے ان کے مکانات اور ترقیات کو ریزہ ریزہ کردیا اور کھجور کے کھوکھلے تنوں کی طرح ان کی لاشیں ہر طرف بکھری ہوئی تھیں۔ اسی طرح قوم ثمود جنہوں نے پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر اس زمانہ میں بیس بیس منزلہ عمارتیں بنائیں جس زمانہ میں دو منزلہ مکان بنانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ انہوں نے دنیاوی اسباب اور تہذیب و تمدن کے بنانے میں زبردست محنتیں کیں لیکن وہ قوم بھی کفر وشرک میں مبتلا ہو کر آخر کے ہر تصور سے محروم تھی۔ ان کی اصلاح کے لئے اللہ نے حضرت صالح (علیہ السلام) کو بھیجا۔ انہوں نے دن رات اس قوم کو سمجھایا مگر وہ کھلی ا انکھوں سے معجزات دیکھ کر بھی ایمان نہ لائے۔ جب حضرت صالح کو اور آخرت کو جھٹلایا تو قوم ثمود کو تیز بارشوں، ہیبت ناک کڑکے اور زلزلے سے تباہ و برباد کردیا گیا۔ اللہ کا نظام اور دستور یہ ہے کہ جو بھی اللہ ورسول کی نافرمانی کرتا ہے وہ دنیاوی طاقت و قوت میں کتنی بھی ترقی کیوں نہ کرلے آخر کار اپنی نافرمانیوں کی وجہ سے تباہ و برباد کردیا جاتا ہے اور جو اللہ پر اس کے رسول پر ایمان لا کر عمل صالح اختیار کرتا ہے اور آخرت پر اس کا یقین ہے تو اللہ اس کو دنیا میں سربلندی اور آخرت میں نجات کی خوش خبری عطا فرماتا ہے۔
Top