بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tadabbur-e-Quran - Al-Haaqqa : 1
اَلْحَآقَّةُۙ
اَلْحَآقَّةُ : سچ مچ ہونیوالی (قیامت)
شدنی
’اَلْحَاقَّۃُ‘ کا مفہوم: ’اَلْحَاقَّۃُ‘ کے معنی ہیں وہ بات جو شُدنی ہو، جس کا وقوع عقلاً و اخلاقاً لازم ہو، جو بالکل اٹل اور قطعی ہو۔ یہ ایک ہی لفظ جملہ کے قائم مقام ہے۔ جن لوگوں نے ’مَا الْحَاقَّۃُ‘ کو اس کی خبر قرار دیا ہے ان کی رائے صحیح نہیں ہے۔ یہ اسلوب بیان اس وقت اختیار کیا جاتا ہے جب مخاطب، خاص طور پر غافل مخاطب کو ہڑبڑا دینا مقصود ہو۔ ایسی صورت میں صرف مبتدا کا ذکر کافی ہوتا ہے، خبر کی ضرورت نہیں ہوتی تاکہ مخاطب کی پوری توجہ مبتدا ہی پر مرکوز ہو جائے۔ اس طرح جملہ میں جو ابہام پیدا ہوتا ہے وہ مخاطب کی توجہ جذب کرنے کا باعث بنتا ہے۔ ’اَلْحَاقَّۃُ‘ قیامت کے ناموں میں سے ہے۔ یہ نام اس کے شُدنی اور واقعی ہونے کو بھی ظاہر کرتا ہے اور عقلاً اور اخلاقاً اس کے واجب ہونے کو بھی۔ اس کے ان دونوں پہلوؤں کے دلائل کی تفصیل پچھلی سورتوں میں بھی گزر چکی ہے، بعض اشارات اس سورہ میں بھی ہیں اور آگے کی سورتوں میں بھی اس کے نہایت اہم پہلو واضح ہوں گے۔ اصلاً تو اس سے مراد قیامت ہی ہے لیکن ضمناً اس میں وہ عذاب بھی شامل ہے جو رسول کی تکذیب کی صورت میں لازماً اس کی قوم پر آیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عذاب قیامت کی تمہید بھی ہوتا ہے اور اس کی تصدیق بھی اور آتا بھی ہے درحقیقت قیامت کی تکذیب ہی کی پاداش میں۔ اللہ کے رسولوں نے بیک وقت دو عذابوں سے ڈرایا ہے۔ ایک عذاب قیامت سے اور دوسرے اس عذاب سے جو تکذیب قیامت کا لازمی نتیجہ ہے۔ قوموں نے جب قیامت کو جھٹلایا اور رسول کی صداقت کی کسوٹی اس عذاب کو ٹھہرایا جس کی دھمکی انھیں تکذیب کے نتیجہ کے طور پر دی گئی تو اتمام حجت کے بعد یہ عذاب ان پر آ گیا۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کی ہر بات اور رسول کی ہر وعید سچی ہے اس وجہ سے یہ عذاب بھی ’حَاقَّۃُ‘ یعنی شُدنی کی حیثیت رکھتا ہے۔
Top