بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Al-Haaqqa : 1
اَلْحَآقَّةُۙ
اَلْحَآقَّةُ : سچ مچ ہونیوالی (قیامت)
وہ ثابت ہو چکنے والی
خلاصہ تفسیر
وہ ہونے والی چیز کیسی کچھ ہے وہ ہونے والی چیز اور آپ کو کچھ خبر ہے کہ کیسی کچھ ہے وہ ہونے والی چیز (مقصود اس سے قیامت کی عظمت اور ہولناک ہونیکا بیان ہے یہ استفہامات تہویل کے لئے ہیں) ثمور اور عاد نے اس کھڑکھڑانے والی چیز (یعنی قیامت) کی تکذیب کی سو ثمود تو ایک زور کی آواز سے ہلاک کردیئے گئے اور عاد جو تھے سو وہ ایک تیز و تند ہوا سے ہلاک کئے گئے جس کو اللہ تعالیٰ نے ان پر سات رات اور آٹھ دن متواتر مسلط کردیا تھا سو (اے مخاطب اگر) تو (اس وقت وہاں موجود ہوتا تو) اس قوم کو اس طرح گرا ہوا دیکھتا کہ گویا وہ گری ہوئی کھجوروں کے تنے (پڑے) ہیں (کیونکہ وہ بہت دراز قد تھے) سو کیا تجھ کو ان میں کا کوئی بچا ہوا نظر آتا ہے (یعنی کوئی نہیں بچا کقولہ تعالیٰ ھل تحس منھم من احد او تسمع لھم برکزا) اور (اسی طرح) فرعون نے اور اس سے پہلے لوگوں نے (جن میں قوم نوح و عاد وثمود سب آگئے) اور (قوم لوط کی) ملی ہوئی بستیوں نے بڑے بڑے قصور کئے (یعنی کفر و شرک اس پر ان کے پاس رسول بھیجے گئے) سو انہوں نے اپے ن رب کے رسول کا (جوان کی طرف بھیجا گیا تھا) کہنا نہ مانا اور کفر و شرک سے باز نہ آئے جس میں تکذیب قیامت بھی داخل ہے) تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت سخت پکڑا (جن میں سے عاد و ثمور کا قصہ تو ابھی آ چکا ہے اور قوم لوط اور قوم فرعون کی عقوبت بہت سی آیتوں میں پہلے آ چکی ہے اور قوم نوح کی عقوبت آگے بضمن امتنان مذکور ہے یعنی) ہم نے جبکہ (نوح ؑ کے وقت میں) پانی کو طغیانی ہوئی تم کو (یعنی تمہاری بزرگوں کو جو مومن تھے اور ان کی نجات تمہارے وجود کا سبب ہوئی) کشتی میں سوار کیا (اور بقایوں کو غرق کردیا) تاکہ ہم اس معاملہ کو تمہارے لئے ایک یادگار (اور عبرت) بنادیں اور یاد رکھیں (کان کو یاد رکھنے والا مجازاً کہہ دیا۔ حاصل یہ کہ اس کو یاد رکھ کر سزا کے اسباب سے بچیں یہ قصے تو مکذبین قیامت کے ہوئے، آگے قیامت کے ہول و خوف کا بیان ہے یعنی) پھر جب صور میں یکبارگی پھونک مار دی اجوے گی (مراد نفخہ اولی ہے) اور (اس وقت) زمین اور پہاڑ (اپنی جگہ سے) اٹھا لئے جاویں گے (یعنی اپنی چیز سے ہٹا دیئے جاویں گے) پھر دونوں ایک ہی دفعہ میں ریزہ ریزہ کردیئے جاویں گے تو اس روز وہ ہونے والی چیز ہو پڑے گی اور آسمان پھٹ جاوے گا اور وہ (آسمان) اس روز بالکل بودا ہوگا (چنانچہ پھٹ جانا دلیل ضعف ہے یعنی جیسا اس وقت وہ مضبوط ہے اور اس میں کہیں فطور و شقوق نہیں، اس روز اس میں یہ بات نہ رہے گی بلکہ ضعف و انشقاق ہوجاوے گا) اور فرشتے (جو آسمان میں پھیلے ہوئے ہیں جس وقت وہ پھٹنا شروع ہوگا) اس کے کناروں پر آجاویں گے (اس سے ظاہراً معلوم ہوتا ہے کہ آسمان بیچ میں سے پھٹ کر چاروں طرف سمیٹنا شروع ہوگا اسلئے فرشتے بھی بیچ میں سے کناروں پر آرہیں گے۔ پھر آیت ضعق من فی السموت ومن فی الارض الخ کے مطابق ان فرشتوں پر بھی موت مسلط ہوجاوے گی۔ (کذا فی الکبیراحد الوجھین) اور یہ سب واقعات تو نفخہ اولی کے وقت کے ہیں) اور (آگے نفخہ ثانیہ کے وقت کے واقعات ہیں کہ) آپ کے پروردگار کے عرش کو اس روز آٹھ فرشتے اٹھائے ہوں گے (حدیث میں ہے کہ اب عرش کو چار فرشتے اھٹائے ہوئے ہیں قیامت کو آٹھ فرشتے اٹھاویں گے (کذا فی الدرمر فوعا)
غرض آٹھ فرشتے عرش کو اٹھا کر میدان قیامت میں لاویں گے اور حساب شروع ہوگا جس کا آگے یان ہے یعنی) جس روز تم (خدا کے روبرو حساب کے واسطے) پیش کئے جاؤ گے (اور) تمہاری کوئی بات (اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہ ہوگی پھر (نامہ اعمال اڑا کر ہاتھ میں دیئے جاویں گے تو) جس شخص کا نامہ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جاوے گا وہ تو (خوشی کے مارے آس پاس والوں سے) کہے گا کہ میرا نامہ اعمال پڑھ لو میرا (تو پہلے ہی سے) اعتقاد تھا کہ مجھ کو میرا حساب پیش آنے والا ہے (یعنی میں قیامت اور حساب کا معتقد تھا، مطلب یہ کہ میں ایمان اور تصدیق رکھتا تھا اللہ تعالیٰ نے اس کی برکت سے آج مجھ کو نوازا) غرض وہ شخص پسندیدہ عیش یعنی بہشت بریں میں ہوگا جس کے میوے (اسقدر) جھکے ہوں گے (کہ جس حالت میں چاہیں گے لے سکیں گے اور حکم ہوگا کہ) (کھاؤ اور پیومزے کے ساتھ ان اعمال کے صلہ میں جو تم نے با امید صلہ گزشتہ ایام (یعنی زمانہ قیام دنیا) میں کئے ہیں اور جس کا نامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جاوے گا سو وہ (نہایت حسرت سے) کہے گا کیا اچھا ہو تاکہ مجھ کو میرا نامہ اعمال ہی نہ ملتا اور مجھ کو یہ ہی خبر نہ ہوتی کہ میرا حساب کیا ہے کیا اچھا ہوتا کہ (پہلی) موت ہی خاتمہ کر چکتی (اور دوبارہ زندہ نہ ہوتے جس پر یہ حساب کتاب مرتب ہوا افسوس) میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا، میرا جاہ (بھی) مجھ سے گیا گزرا (یعنی مال و جاہ سب بےسود ٹھہرے ایسے شخص کے لئے فرشتوں کو حکم ہوگا کہ) اس شخص کو پکڑو اور اس کے گلے میں طوق پہنا دو پھر دوزخ میں اس کو داخل کرو، پھر ایک ایسی زنجیر میں جس کی پیمائش ستر گز ہے اس کو جکڑ دو (اس گز کی مقدار خدا کو معلوم ہے کیونکہ یہ گز وہاں کا ہوگا اس عذاب کی وجہ بتلاتے ہیں کہ) یہ شخص خدائے بزرگ پر ایمان نہ رکھتا تھا (یعنی جس طرح ایمان لانا حسب عتلیم انبیاء ضروری تھا وہ ایمان نہ رکھتا تھا) اور (خود تو کسی کو کیا دیتا اوروں کو بھی) غریب آدمی کے کھلانے کی ترغیب نہ دیتا تھا۔ (حاصل یہ کہ خدا کی عظمت اور مخلوق کی شفقت جو اصل عبادات متعلقہ حقوق اللہ وحقوق العباد ہیں یہ دونوں کا تارک اور منکر تھا اس لئے مستحق عذاب ہوا) سو آج اس شخص کا نہ کوئی دوستدار ہے اور نہ اس کو کوئی کھانے کی چیز نصیب ہے بجز زخموں کے ھو ون کے (یعنی بجز ایک ایسی چیز کے جو کراہت و صورت میں مثل غسلین کے ہوگا جس سے زخم دھوئے گئے ہوں اور یہ حصر اضافی ہے اور مقصو د اس سے نفی ہے مرغوب کھانوں کی ورنہ زقوم کی غذا ہونا خود آیات سے ثابت ہے کہ غرض ان کا طعام غسلین ہوگا) جس کو بجز بڑے گناہگاروں کے کوئی نہ کھاوے گا (آگے قرآن کی حقانیت ارشاد فرمائی جاتی ہے جس میں قیامت میں جزاء و سزا ہونے کا بیان ہے۔ اس کی تکذیب موجب تعذیب مذکور ہے) پھر (بعد بیان مضمون مجازاة کے) میں قسم کھاتا ہوں ان چیزوں کی بھی جن کو تم دیکھتے ہو اور ان چیزوں کی بھی جن کو تم نہیں دیکھتے (کیونکہ بعض مخلوقات بالفعل یا بالقوہ آنکھوں سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور بعض مخلوقات بالفعل یا بالقوہ یہ صلحایت نہیں رکھتیں، اس قسم کو مقصود سے ایک خاص مناسبت ہے کہ قرآن مجید کا لانیوالا نظر نہ آتا تھا اور جن پر قرآن آتا تھا وہ نظر آتے تھے مراد یہ کہ تمام مخلوق کی قسم ہے) کہ یہ قرآن (اللہ کا) کلام ہے ایک معزز فرشتہ کا لایا ہوا (پس جس پر یہ کلام نازل ہوا وہ ضرور رسول ہے) اور یہ کسی شاعر کا کلام نہیں ہے (جیسا کہ کفار آپ کو شاعر کہتے تھے مگر) تم بہت کم ایمان لاتے ہو (یہاں قلت سے مراد عدم ہے) اور یہ نہ کسی کا ہن کا کلام ہے (جیسا بعض کفار آپ کو کہتے تھے مگر) تم بہت کم سمجھتے ہو (یہاں بھی قلت سے مراد عدم ہے غرض یہ نہ شعر ہے نہ کہانت ہے بلکہ) رب العالمین کی طرف سے بھیجا ہوا (کلام) ہے اور (آگے اس کی حقاینت کی ایک دلیل عقلی ارشاد ہوتی ہے کہ) اگر یہ (پیغمبر) ہمارے ذمہ کچھ (جھوٹی) باتیں لگا دیتے (یعنی جو کلام ہمارا نہ ہوتا اس کو ہمارا کلام کہتے اور جھوٹا دعویٰ نبوت کا کرتے) تو ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑتے پھر ہم ان کی رگ دل کاٹ ڈالتے پھر تم میں کوئی ان کا اس سزا سے بچانے والا بھی نہ ہوتا (رگ دل کاٹنے سے آدمی مر جاتا ہے مراد اس سے قتل ہے) اور بلاشبہ یہ قرآن متقیوں کے لئے نصیحت ہے (یعنی فی نفسہ حق ہونا اس کی صفت کمالیہ ذاتیہ ہے اور موجب نصیحت ہونا اس کی صفت کمالیہ اضافیہ ہے) اور (آگے مکذبین کی وعید ہے کہ ہم کو معلوم ہے کہ تم میں سے بعض تکذیب کرنے والے بھی ہیں (پس ہم ان کو اس کی سزا دیں گے) اور (اس اعتبار سے) یہ قرآن کافروں کے حق میں موجب حسرت ہے (کیونکہ ان کے لئے بوجہ تکذیب کے سبب عذاب ہوگیا) اور یہ قرآن تحقیقی یقینی بات ہے سو (جس کا یہ کلام ہے) اپنے (اس) عظیم الشان پروردگار کے نام کی تسبیح (وتحمید) کیجئے۔

معارف و مسائل
اس سورت میں قیامت کے ہولناک واقعات اور پھر وہاں کفار و فجار کی سزا اور مؤمنین و متقین کی جزاء کا ذکر ہے قیامت کے نام قرآن کریم میں بہت سے آئے ہیں۔ اس سورت میں قیامت کو حاقہ کے لفظ سے، پھر قارعہ کے پھر واقعہ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے اور یہ سب قیامت کے نام ہیں۔
لفظ حاقہ کے معنی حق اور ثابت کے بھی آتے ہیں اور دوسری چیزوں کو حق ثابت کرنے والی چیز کو بھی حاقہ کہتے ہیں۔ قیامت پر یہ لفظ دونوں معنے کے اعتبار سے صادق آتا ہے کیونکہ قیامت خود بھی حق ہے اور اس کا وقوع ثابت اور یقینی ہے اور قیامت مومنین کے لئے جنت اور کفار کے لئے جہنم ثابت اور مقرر کرنے والی بھی ہے۔ یہاں قیامت کے اس نام کے ساتھ سوال کو مکرر کر کے اس کے مافوق القیاس اور حیرت انگیز ہولناک ہونے کی طرف اشارہ ہے۔
قارعہ کے لفظی معنے کھڑکھڑانے والی چیز کے ہیں۔ قیامت کے لئے یہ لفظ اس لئے بولا گیا کہ وہ سب لوگوں کو مضطرب اور بےچین کرنے والی اور تمام آسمان و زمین کے اجسام کو منتشر کرنے اولی ہے۔
طاغیہ طغیان سے مشتق ہے جس کے معنے حد سے نکل جانے کے ہیں۔ مراد ایسی سخت آواز ہے جو تمام دنیا کی آوازوں کی حد سے باہر ہے اور زیادہ ہے جس کو انسان کا قلب و دماغ برداشت نہ کرسکے۔ قوم ثمود کی نافرمانی جب حد سے بڑھ گئی تو ان پر اللہ کا عذاب اسی سخت آواز کی صورت میں آیا تھا جس میں تمام دنیا کی بجلیوں کی کڑک اور دنیا بھر کی سب سخت آواز کی صورت میں ایٓا تھا جس میں تمام دنیا کی بجلیوں کی کڑک اور دنیا بھر کی سب سخت آوازوں کا مجموعہ تھا جس سے ان کے دل پھٹ گئے۔
Top