بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Haqqani - Al-Haaqqa : 1
اَلْحَآقَّةُۙ
اَلْحَآقَّةُ : سچ مچ ہونیوالی (قیامت)
ہونے والی
ترکیب : الحاقۃ الساعۃ والحالۃ التی بحق فیھا الامور مبتداء ما الحاقۃ خبرھا واصلہ ماھی فوضع الظاہر موضع المضمر للتھویل وما مبتداء ادراک خبرہ ما الحاقۃ الجملۃ فی محل النصب لکونھا مفعولاثانیا لادراک واماثمود مبتداء فاھلکو الخ خبرہ طاغیۃ مصدر کالعافیۃ قیل الصحیۃ التی جاوزت الحد وھی صحیۃ جبرئیل وقیل الرجفۃ ای لزلزتہ صرصر الشدید الصوت لھاصرصرۃ عاتیۃ من العتوفقیل عتت الریح علی الخزان فلم یکن لھم علیھا سبیل وقیل عتت علی عادفما قدروا واعلیٰ ردھا بحیلۃ من استنادبنباء اواستنا دالی جبل وقیل لیس من العتوبمعنی العصیاں بل بمعنی بلوغ الشیء وانتہا بہ کما فی قولہ تعالیٰ (وقدبلغت من الکبر عتیا) عاتیۃ ای بالفۃ منتھاھا فی القوۃ والشدۃ سخرھا جملہ مستانفۃ لبیان کیفۃ اہلاکھم ویجوزان تکون صفۃ لریح۔ وان تکون حالامنھا وثمانیۃ ایام معطوف علی سبع لیال وھمامنصوبان علی انھما ظرف لسخر حسوما الحسوم جمع حاسم کشھود وقعود والحسم فی اللغۃ القطع بالاستیصال ومنہ الحسام السیف ومعناہ فی الآیۃ التتابع لان تلک الریاح لماکانت متتابعۃ ماسکنت سائمۃً کانھا قطعت القوم واسا صلتھم فعلی ھذا القول انتصابہ علی لغت لسبع لیال الخ ای متتابعاث وھذا قول الاکثرین۔ وقیل الحسوم مصدر کا لشکور والکفور فعلی ھذا انتصابہ امابفعل مضمر والتقدیر یحسم حسوما وامالکونہ مفعولالہ ای مسخرھا علیھم الاستیصال وقیل حال من الریح ای مستاصلۃ وصرعی جمع صریع یعنی موتی ھو حال کانہم الخ حال من القوم اوجملۃ مستانفۃ۔ والنخل یذکر یؤنث۔ ھذا اخبار عن عظم اجسامھم۔ تفسیر : قرطبی فرماتے ہیں کہ یہ سورة بھی بالاتفاق مکیہ ہے یعنی ہجرت سے پہلے مکہ میں نازل ہوئی ہے۔ ابن عباس و ابن زبیر ؓ بھی یہی فرماتے ہیں۔ طبرانی نے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ فجر کی نماز میں سورة حاقہ اور اس کی مثل اور سورة پڑھا کرتے تھے۔ مناسبت اس سورة کی سورة نون سے یہ ہے کہ انسان کی بدکرداری و کفر پر جو خداوند تعالیٰ کی طرف سے سزا نازل ہوتی ہے جو دراصل اسی کے افعالِ بد کا نتیجہ یا ایک اثرغیر منفک ہوتا ہے اس کی دو قسم ہیں۔ قسم اول : قسم اول کو ابتلاء کہتے ہیں جو محض اس کی سرزنش اور تنبیہ کے لیے ہوتی ہے کہ اس کی وجہ سے اپنے کردارِ بد سے باز آجائے اور اسی کو امتحان و آزمائش بھی کہتے ہیں۔ جیسا کہ قحط، وبا، بدامنی، باہمی نفاق و قتال وجدال ‘ جبار بادشاہوں کا تسلط، زلزلہ، ژالہ باری، کثرت امراض، طوفان ہوا، طوفانِ آب وغیرہ یہ مصیبت ایک حیثیت سے قہر تو دوسری حیثیت سے (کہ یہ زاجر ہے اس کے سبب سے باز آئیں گے) مہر بھی ہے اس لیے اس میں بدوں کے ساتھ نیک بھی پس جاتے ہیں تاکہ نیکوں کو تنبیہ ہو جو امرمعروف میں ان سے کوتاہی صادر ہوئی تھی کچھ اس سستی کا خمیازہ یہ بھی تو اٹھائیں یا ان کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے یا رفع درجات اخرویہ کا سلسلہ ہوجائے اور ان کا امتحان بھی ہے کہ ایسی حالت میں بھی ثابت قدم رہتے ہیں۔ اب اس کلیہ کو آپ اس کے سینکڑوں امثال پر مطابق کرلیجئے۔ طوفان نوح، سدوم وغیرہ بستیوں کی بربادی، بنی اسرائیل پر وبا اور غیربادشاہوں کا تسلط جس میں سینکڑوں تہ تیغ ہوگئے۔ حضرت دانیال (علیہ السلام) جیسے اولوالعزم نبی بھی قیدیوں میں بابل پہنچے۔ انہیں نظائر کو قرآن مجید نے باربار بندوں کو یاد دلایا ہے کہ ان پر پڑی تھی تم سن کر باز آجاؤ اور پہلی کتابوں میں بھی ان ہولناک وقائع کو یاد دلایا ہے۔ قسم دوم : قسم دوم انتقام جو ابتلاء کے بعد بھی نہ سمجھے۔ اور اس سزا کو حاقہ کہتے ہیں جو کسی کے ٹالے نہیں ٹلتی اور یہ انتقامِ الٰہی اخیر پر ہوتا ہے جہاں نہ توبہ کی مہلت نہ استغفار کی فرصت ملتی ہے اور اس کے بعد دنیا سے رحلت ہو کر عالم برزخ کا قیدخانہ ہوتا ہے یا قیامت کا تازیانہ۔ اس میں نیک لوگ شامل نہیں ہوتے ان کو خدائے پاک بہرطور محفوظ ہی رکھتا ہے جو اس کی عدالت کا عین مقتضٰی ہے۔ سورة نون میں کفار مکہ کو ابتلاء سے ڈرایا گیا تھا اور باغ والوں کا قصہ بھی یاد دلایا تھا انا بلوناھم کمابلونا اصحاب الجنۃ۔ جو ان کی گستاخی کی سزا تھی کہ وہ آنحضرت ﷺ کو دیوانہ کہتے تھے جیسا کہ اصحاب الجنۃ کی بدنیتی کی سزا ان کو ملی تھی مگر مکہ کے کفار جن کے دلوں پر خدا نے مہر کردی تھی اس ابتلا کو جو سات برس کا قحط تھا اور اور بھی مصائب تھے کب خاطر میں لانے والے تھے۔ اس کے بعد بھی وہ ایسے ہی سخت دل رہے اور ڈھٹائی سے سخت عذاب آنے کے خواستگار ہوئے۔ اس لیے اس سورة مبارکہ میں حاقہ عذاب بیان فرماتا ہے جو بیشتر قیامت میں ہوگا اور کبھی غیرت الٰہی دنیا میں بھی نازل کردیتی ہے اور پہلی امتوں پر جو دنیا میں حاقہ نازل ہوا اس کی ان کے مسلمہ واقعات سے نظیر دیتا ہے۔ فقال الحاقۃ ما الحاقۃ کیا ہی حاقہ ہے۔ یہ اور اس کے بعد کا جملہ وما ادراک ما الحاقۃ کہ تو کیا جانے کیا ہے حاقہ ؟ حاقہ کی عظمت شان کے لیے آیا ہے جیسا کہ کہتے ہیں زید ما زید کہ زید کیا زید ہے۔ مفسرین کہتے ہیں الحاقہ سے مراد یہاں قیامت ہے۔ پھر اس کے لفظی معنی میں چند اقوال ہیں۔ اوّل حاقہ حق بمعنی ثابت سے ہے پھر حاقہ کے معنی ہیں الساعۃ الواجبۃ الثابتہ۔ دوم یہ وہ ساعت ہے کہ جس میں سب باتیں معلوم ہوجائیں گی اور بھی اقوال ہیں۔ وما ادراک میں مخاطب بالخصوص حضرت نبی کریم ﷺ نہیں بلکہ ہر مخاطب۔ وہ حاقہ کی حقیقت سے بیشک واقف نہ تھے اس لیے ما ادراک کہنا بےجا نہیں اور اگر حضرت رسول کریم ﷺ ہی مخاطب ہوں تو وہ بھی حاقہ کی کنہ نہیں جانتے تھے علم بالکنہ کی نفی ہے نہ علم بالوجہ وبوجہ کی اس لیے آپ کی نسبت بھی ما ادراک کہنا ناروا نہیں۔ فائدہ : یحییٰ بن سلام کہتے ہیں قرآن مجید میں جہاں کہیں ما ادراک ماضی کے صیغہ میں آیا ہے آخر اس چیز کو آنحضرت ﷺ کو بتا دیا گیا ہے اور جہاں کہیں مایدریک کے صیغہ سے آیا ہے وہاں وہ بات آپ سے بھی مخفی رکھی گئی ہے۔ وفیہ مافیہ۔ اب اس کے بعد چند نظائر حاقہ کے بیان فرماتا ہے جو اگلی قوموں پر دنیا میں نازل ہوئیں۔ (1) عادوثمود کی ہلاکت جو عرب کے ملک میں ہوئی اور وہ ایک متواتر روایت تھی جس کا کوئی عرب انکار نہیں کرسکتا تھا۔ قارعہ کا بیان : فقال کذب ثمود و عاد بالقارعۃ کہ قوم ثمود نے جو عرب کے شمال و غرب کے حصے میں آباد تھی جن کے پہاڑوں میں تراشے ہوئے گھر اب تک یادگار ہیں اور اسی طرح ان سے پہلے قوم عاد نے جو یمن میں رہتے تھے قارعہ یعنی قیامت کو جھٹلایا اگرچہ جھٹلایا تو رسولوں اور ان کی تمام باتوں کو بھی تھا مگر قیامت کی تکذیب ایک ایسا فعلِ بد ہے جو انسان کو دلیر بنا کر تمام اصول سعادت سے روک دیتا ہے۔ اس لیے بالخصوص اس کا نام لیا گیا۔ اور قیامت کو قارعہ اس لیے کہا کہ قرع ٹھوکنے اور کھڑکھڑانے کو کہتے ہیں اور قیامت بھی ایک ایسا ہولناک واقعہ ہے کہ دلوں کو اپنی ہول و دہشت سے ہلا دے گا اس لیے اس کی ہولناک حالت یاد دلانے کے لیے القارعۃ کے لفظ سے تعبیر کیا اور حاقہ اور قارعہ رئوس آیات میں ایک وزن خاص بھی رکھتے ہیں جو نظم قرآنیہ کو اور بھی لطف دے رہے ہیں۔ بعض کہتے ہیں القارعہ سے مراد خاص قیامت نہیں بلکہ عموماً زواجر اور گناہوں سے روکنے والی اور دل کو ہلا دینے والی باتیں ہیں جو ان کے انبیاء (علیہم السلام) حضرت صالح و حضرت ہود ( علیہ السلام) نے بیان فرمائیں تھیں۔ قوم ثمود کی ہلاکت : دونوں قومیں ایک جرم میں شریک تھیں۔ ہرچند ان کے انبیاء نے سمجھایا جب نہ مانا تو انتقامِ الٰہی کا وقت آگیا۔ پھر آگے ہر فرقے کی ہلاکت بیان فرماتا ہے۔ فاماثمودفاھلکوا بالطاغیۃ کہ قوم ثمود طاغیۃ سے ہلاک ہوئی۔ طاغیہ کا بیان : یہ زلزلہ کی سخت اور حد سے متجاوز آواز تھی جیسا کہ ایک جگہ آیا ہے۔ اناارسلنا علیہم صیحۃ واحدۃ فکانواکہشیم المحتظر۔ بعض کہتے ہیں بجلی کی کڑک تھی۔ بعض کہتے ہیں طاغیہ مصدر ہے جیسا کہ کاذبہ و عاقبہ تب اس کے یہ معنی کہ وہ سرکشی کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ بعض کہتے ہیں طاغیہ سے مراد وہ بدنہاد شخص ہے جس نے اونٹنی کی کونچیں کاٹی تھیں اور ت مذکر کے لیے بھی آجاتی ہے جیسا کہ نسایہ وراویّۃ میں ہے۔ اگر طاغیہ سے مراد وہ فاحشہ عورت لی جائے جس کے کہنے سے اس بدبخت نے اونٹنی کی کونچیں کاٹی گئیں تو اور بھی انسب لیکن قول اول قوی ہے۔ فائدہ : ثمود کا واقعہ بہ نسبت عاد کے واقعہ کے زمانے میں قریب تھا اس لیے اول اس کو ذکر کیا کیونکہ قریب زمانے کی بات زیادہ موثر ہوتی ہے۔ قوم عاد کی ہلاکت : اس کے بعد عاد کے واقعہ کو جو اس سے پہلے گزرا تھا۔ فقال واماعاد فاھلکوا بریح صرصر عاتیۃ۔ لیکن عاد سو وہ ہوا سے ہلاک ہوئے جو صرصر یعنی زناٹے کی تھی اور عاتیۃ بہت تیزوتند تھی کسی کے بس کی نہ تھی۔ سخرھا علیہم سبع لیال وثمانیۃ ایام حسوما۔ اس کو ان پر سات رات آٹھ دن پے در پے مسلط کیا تھا۔ برابر چلتی رہی جس نے نہ کوئی درخت چھوڑا، نہ مکان۔ قوم عاد ہلاک ہوگئی۔ ہوا بدھ کے روز صبح سے شروع ہوئی تھی پھر اگلے بدھ کی شام کو تھمی۔ ان ایام کو عرب عجوز کہتے ہیں۔ سردی بھی سخت تھی۔ اور سردی کا اخیر موسم تھا، عرب میں اس موسم کے یہ نام ہیں، صنؔ‘ صنبرؔ و بر ‘ آمرؔ‘ موتمرؔ‘ معللؔ‘ مطفیٰؔ‘ الجمرؔ‘ مکفیؔ‘ الظعنؔ۔ سخرھا کے لفظ میں اشارہ ہے کہ ہم نے مسخر و مسلط کیا تھا اس کو کوئی موسم و کواکب کی تاثیر سے نہ سمجھے کس لیے کہ گمراہ ہر ایک آسمانی چیز کو سبب ظاہری پر منحصر کرتے ہیں۔ ان کی کوتاہ نگاہیں مسبب الاسباب تک نہیں پہنچتیں۔ عاد قوم کے لوگ بڑے قدرآور تھے، ہوا کے بعد فتری القوم فیہا صرٰعی ہر ایک لاش میدان میں زخمی ہوئی ایسی پڑی دکھائی دیتی تھی جیسا کہ کھجور کے بڑے بڑے درخت کٹے پڑے ہوں۔ کانہم اعجاز نخل کھوکھلے ٹھونڈوں سے اس لیے تشبیہ دی کہ ان کے اندر نورومعرفت کچھ نہ تھا یا یوں بھی انسان اندر سے مجوف ہوتا ہے اور لمبے بھی تھے اس لیے کھجور کے درختوں سے جو کھوکھلے ہوتے ہیں پوری تشبیہ ہے۔ فہل تری لہم من باقیہ۔ پھر آپ کو اے دیکھنے والے ! ان میں سے کوئی بھی باقی دکھائی دیا ؟ کوئی نہیں سب مر کر رہ گئے۔ لیکن حضرت ہود (علیہ السلام) اور جو ان پر ایمان لائے تھے وہ سب بچ گئے اور حضرت ہود (علیہ السلام) نے ان کو پہلے سے خبر دی تھی مگر انہوں نے ٹھٹھوں میں اڑا دیا۔ بڑے مالدار بڑے زورآور تھے۔ عاد وثمود کے قصے کی پوری شرح مؤرخانہ طور پر ہم سورة اعراف کی تفسیر میں بیان کر آئے ہیں، وہاں دیکھو۔
Top