بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mutaliya-e-Quran - Al-Haaqqa : 1
اَلْحَآقَّةُۙ
اَلْحَآقَّةُ : سچ مچ ہونیوالی (قیامت)
ہونی شدنی!
[اَلْحَاۗقَّةُ : وہ ثابت ہونے والی ] نوٹ۔ 1: سابقہ سورة القلم سے اس سورة کو گہری مناسبت ہے۔ دونوں کا عمود (یعنی مرکزی موضوع) ایک ہی ہے یعنی اثبات عذاب (دنیا میں آنے والے عذاب) اور قیامت (دنیا کا خاتمہ) ۔ البتہ نہج استدلال دونوں میں الگ الگ ہے۔ قرآن کی عظمت و صداقت جس طرح سابق سورة میں واضح کی گئی ہے اور اس کی تکذیب کے نتائج سے ڈرایا گیا ہے، اسی طرح اس سورة میں بھی یہی مضمون زیر بحث آیا ہے۔ بس یہ فرق ہے کہ سابق سورة میں یہ مضمون تمہید کی حیثیت سے ہے اور اس سورة میں اختتام کے طور پر ہے۔ تذکیر و تعلیم کے پہلو سے ان دونوں اسلوبوں کی اہمیت الگ الگ ہے۔ (تدبیر قرآن) نوٹ۔ 2: کفار مکہ چونکہ قیامت کو جھٹلا رہے تھے اور اس کے آنے کی خبر کو مذاق سمجھتے تھے اس لیے پہلے ان کو خبردار کیا گیا کہ وہ تو ہونی شدنی ہے، تم چاہے مانو یا نہ مانو، وہ بہرحال آ کر رہے گی۔ اس کے بعد ان کو بتایا گیا کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے کہ کوئی شخص ایک پیش آنے والے واقعہ کی خبر کو تسلیم کرتا ہے یا نہیں، بلکہ اس کا نہایت گہرا تعلق قوموں کے اخلاق اور پھر ان کے مستقبل سے ہے۔ تم سے پہلے گزری ہوئی قوموں کی تاریخ شاہد ہے کہ جس قوم نے بھی آخرت کا انکار کر کے اسی دنیا کی زندگی کو اصل زندگی سمجھا اور اس بات کو جھٹلا دیا کہ انسان کو آخرکار خدا کی عدالت میں اپنا حساب دینا ہوگا، وہ سخت اخلاقی بگاڑ میں مبتلا ہوئی، یہاں تک کہ خدا کے عذاب نے آ کر دنیا کو اس وجود سے پاک کردیا۔ (تفہیم القرآن)
Top