Al-Quran-al-Kareem - Al-Insaan : 19
وَ یَطُوْفُ عَلَیْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ١ۚ اِذَا رَاَیْتَهُمْ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤًا مَّنْثُوْرًا
وَيَطُوْفُ : اور گردش کرینگے عَلَيْهِمْ : ان پر وِلْدَانٌ : لڑکے مُّخَلَّدُوْنَ ۚ : ہمیشہ (نوعمر) رہنے والے اِذَا رَاَيْتَهُمْ : جب تو انہیں دیکھے حَسِبْتَهُمْ : تو انہیں سمجھے لُؤْلُؤًا : موتی مَّنْثُوْرًا : بکھرے ہوئے
اور ان کے اردگرد لڑکے گھوم رہے ہوں گے، جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے، جب تو انھیں دیکھے گا تو انھیں بکھرے ہوئے موتی گمان کرے گا۔
ویطوف علیھم ولدان مخلدون…: یعنی جنتیوں کی مجلس میں خدمت کے لئے ایسے لڑکے گردش کرتے رہیں گے جن میں دو وصف نمایاں ہوں گے، ایک تو یہ کہ وہ ہمیشہ بچے ہی رہیں گے، کیونکہ خدمت کے لئے بڑی عمر کے آدمی کے بجائے بچے زیادہ مستعد اور موزوں ہوتے ہیں اور انہیں خدمت کے لئے کوئی کام کہنے میں حجاب نہیں ہوتا۔ دوسرا یہ کہ وہ اتنے خوبصورت ہوں گے کہ جب تم انہیں آتے جاتے دیکھو گے تو گمان کرو گے کہ وہ بکھرے ہوئے موتی ہیں۔ ان کی خدمت کے لئے ہر طرف پھیلے ہوئے ہونے کو موتیوں کے بکھرنے سے تشبیہ دی ہے۔ یہ لڑکے کوئی الگ مخلوق ہوگی، جو اللہ تعالیٰ اہل جنت کی خدمت کے لئے پید فرمائیگا یا جنتیوں کے اپنے لڑکے ہوں گے ؟ اگرچہ پہلی بات بھی ممکن ہے، مگر سورة طور سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جنیوں کے اپنے بچے ہی ہوں گے، فرمایا :(ویطوف علیھم غلمان لہم کانھم لولو مکنون) (الطور : 23) ”اور ان پر پھریں گے ان کے لڑکے، گویا وہ چھپائے ہوئے موتی ہیں۔“ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لڑکے ان کے اپنے ہی بچے ہوں گے جو دنیا میں فوت ہوگئے یا جنت میں اگر کسی کو اولاد کی خواہش ہوئی، تو وہ بچے انہیں عطا کئے جائیں گے۔ یہ بچے خدمت کے لئے ان کے ارگرد پھریں گے اور ان کے لئے مزید راحت و مسرت کا باعث ہوں گے۔ (واللہ اعلم) ابو سعید خدری ؓ عنہمانے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(المومن اذا اشتھی الولد فی الجنۃ ، کان حملہ ووضعہ وسنۃ فی ساعۃ واحدۃ ، کما یشتھی) (ابن ماجہ ، الزھد، باب صفۃ الجنۃ : 3338، وقال الالبانی صحیح ”مومن جب جنت میں اولاد چاہے گا تو اس کا حمل اور وضع حمل اور اس کا بڑا ہونا ایک گھڑی میں ہوجائے گا ، اس کی خواہش کے مطابق۔“
Top