Anwar-ul-Bayan - Yunus : 19
وَ مَا كَانَ النَّاسُ اِلَّاۤ اُمَّةً وَّاحِدَةً فَاخْتَلَفُوْا١ؕ وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَقُضِیَ بَیْنَهُمْ فِیْمَا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ
وَمَا كَانَ : اور نہ تھے النَّاسُ : لوگ اِلَّآ : مگر اُمَّةً وَّاحِدَةً : امت واحد فَاخْتَلَفُوْا : پھر انہوں نے اختلاف کیا وَلَوْ : اور اگر لَا : نہ كَلِمَةٌ : بات سَبَقَتْ : پہلے ہوچکی مِنْ : سے رَّبِّكَ : تیرا رب لَقُضِيَ : تو فیصلہ ہوجاتا بَيْنَھُمْ : ان کے درمیان فِيْمَا : اس میں جو فِيْهِ : اس میں يَخْتَلِفُوْنَ : وہ اختلاف کرتے ہیں
اور لوگ پہلے ایک ہی امت تھے پھر انہوں نے آپس میں اختلاف کرلیا ' اور اگر آپ کے رب کی طرف سے پہلے سے بات طے نہ ہوچکی ہوتی تو ان کے درمیان اس چیز میں فیصلہ ہوچکا ہوتا جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں
پھر فرمایا (وَمَا کَان النَّاسُ اِلَّا اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَاخْتَلَفُوْا) یعنی سب لوگ ایک ہی جماعت تھے سو انہوں نے اختلاف کرلیا یعنی بنی آدم کا ایک ہی دین تھا سب موحد تھے اور دین اسلام پر تھے پھر لوگوں میں اختلاف ہوگیا اور بہت سے لوگ ایمان کو چھوڑ کر کافر ہوگئے اور بہت سے لوگ کافر ہی نہیں مشرک بھی ہوگئے۔ حضرت قتادہ سے تفسیر در منثور (ص 243 ج 1) میں نقل کیا ہے کہ حضرت آدم اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے درمیان جو قرنیں تھیں یہ سب ہدایت پر حق شریعت پر تھیں ‘ پھر لوگوں نے اختلاف کی راہیں نکالیں۔ بہت سے لوگوں نے دین حق کو چھوڑ دیا اور مؤمن و کافر دو جماعتیں ہوگئیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو بھیجا وہ جن لوگوں کی طرف مبعوث ہوئے ان کی بت پرستی اور بتوں کے ناموں کا تذکرہ سورة مذکور ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے تشریف لانے سے کچھ عرصہ پہلے لوگ مشرک ہوگئے تھے مشرک عذاب کے مستحق ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقررہ اجل سے پہلے مشرکین پر عذاب نہیں بھیجا جاتا ‘ اس کے بارے میں فرمایا (وَلَوْ لَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّکَ لَقُضِیَ بَیْنَھُمْ فِیْمَا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ ) (اور اگر آپ کے رب کی طرف سے پہلے سے یہ بات طے نہ ہوچکی ہوتی تو ان کے درمیان اس چیز میں فیصلہ ہوچکا ہوتا جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں) اور وہ کون سی بات ہے جو پہلے سے طے ہوچکی ہے اس کے بارے میں متعدد اقوال ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر امت کے لئے جو ایک اجل مقرر فرما دی ہے اس اجل سے پہلے ہلاک نہیں فرمائے گا اور مطلب یہ ہے کہ اگر اجل مقرر نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ فیصلہ فرما دیتا اور مکذبین (جھٹلانے والوں) پر عذاب بھیج دیتا اور یہیں حق اور باطل کا فیصلہ ہوتا یعنی اہل کفر ہلاک ہوجاتے اور اہل ایمان باقی رہ جاتے اور حضرت حسن نے آیت کا مطلب بتاتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے پہلے سے یہ بات طے فرما دی ہے کہ قیامت کے دن سے پہلے ثواب اور عقاب کا فیصلہ نہیں ہوگا بلکہ یہ فیصلہ قیامت کے دن ہوگا اس لئے دنیا میں ایسا فیصلہ نہیں کیا جاتا کہ ثواب والوں کو یہیں بدلہ مل جائے اور مستحقین عذاب پر یہیں عذاب آجائے ‘ تیسرا قول مفسر کلبی سے نقل کیا گیا ہے جو دل کو نہیں لگا لہٰذا ہم نے اس کا ذکر چھوڑ دیا۔ یہ مضمون سورة بقرہ کی آیت کان النَّاسُ اِلَّا اُمَّۃً وَّاحِدَۃً کے ذیل میں بھی گزر چکا ہے مراجعت کرلی جائے۔ (دیکھو انوار البیان جلد اول)
Top