Baseerat-e-Quran - Yunus : 19
وَ مَا كَانَ النَّاسُ اِلَّاۤ اُمَّةً وَّاحِدَةً فَاخْتَلَفُوْا١ؕ وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَقُضِیَ بَیْنَهُمْ فِیْمَا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ
وَمَا كَانَ : اور نہ تھے النَّاسُ : لوگ اِلَّآ : مگر اُمَّةً وَّاحِدَةً : امت واحد فَاخْتَلَفُوْا : پھر انہوں نے اختلاف کیا وَلَوْ : اور اگر لَا : نہ كَلِمَةٌ : بات سَبَقَتْ : پہلے ہوچکی مِنْ : سے رَّبِّكَ : تیرا رب لَقُضِيَ : تو فیصلہ ہوجاتا بَيْنَھُمْ : ان کے درمیان فِيْمَا : اس میں جو فِيْهِ : اس میں يَخْتَلِفُوْنَ : وہ اختلاف کرتے ہیں
تمام انسان ایک ہی امت تھے پھر انہوں نے آپس میں اختلاف کیا اور اگر ایک بات آپ ﷺ کے رب کی طرف سے طے نہ کردی گئی ہوتی تو جس چیز میں و اختلاف کر رہے ہیں ان کے درمیان اس کا فیصلہ کردیا جاتا۔
لغات القرآن آیت نمبر 19 تا 20 امۃ (جماعت، گروہ) سبقت (گزر گئی، طے کردی گئی) قضی (فیصلہ کردیا گیا ہے) آیۃ (نشانی، معجزہ) الغیب (بن دیکھی حقیقتیں ) انتظروا (تم انتظار کرو) تشریح : آیت نمبر 19 تا 20 ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے تین باتیں ارشاد فرمائی ہیں :- 1) ابتداء میں سارے انسان ایک ہی امت تھے۔ یعنی ان میں نہ تو فرمانی اور شرک و کفر کے جذبات تھے اور نہ وہ زبان رنگ و نسل، قوم اور قبیلہ میں تقسیم تھے بلکہ ان کے دل ایک ساتھ دھڑکتے تھے۔ بعد میں شیاطن کے بہکانے سے ان میں عقیدہ اور فکر و ذہن کے اختلاف پیدا ہوگئے اور وہ مختلف قومیتوں میں تقسیم ہوگئے۔ اس طرح ایک امت کا وہ تصور دھندلاتا چلا گیا جس کے لئے انبیاء کرام تشریف لاتے رہے۔ ان کو ان کی نافرمانیوں سے روکنے کی کوشش کرتے رہے۔ سعادت مند لوگوں نے ان کی لائی ہوئی سچائی کو اپنایا لیکن بہت سوں نے نافرمانی کا طریقہ اختیار کیا۔ اگر اللہ چاہتا تو ان کو ان کی نافرمانیوں کی پوری پوری سزا اسی وقت دے سکتا تھا مگر اس حلیم و غفور نے یہ فیصلہ فرما رکھا ہے کہ نافرمانوں کو پوری سزا اس دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں دی جائے گی۔ امت انسانی جماعت کو کہتے ہیں جو اعتقادات میں یکساں ذہن و فکر رکھتی ہو جو رنگ و نسل ، زبان اور علاقہ پرستی سے آزاد ایک دین کی سچائی کو ماننے والی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے ماننے والوں کو ایکا مت فرمایا ہے بلکہ امت وسط اور خیر امت کے القاب عطا فرمائے ہیں۔ امت وسط یعنی ایسی جماعت جس کے مزاج میں اعتدال اور تو ازن ہے۔ ” خیرامت “ یعنی دنیا کی تمام جماعتوں میں بہترین امت جو کسی خاص علاقے ملک یا نسل والوں کے لئے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لئے خیر اور بھلائی کی حامل بنائی گئی ہے۔ اس امت کا بنیادی کام یہ ہے کہ وہ ساری انساینت کی بھلائی کے لئے ہر گناہ کی بات کو جڑ و بنیاد سے اکھاڑنے اور نیکی کو قائم کرنے کی جدوجہد کرتی ہے تاکہ تمام لوگ اللہ پر ایمان لانے والے بن جائیں۔ 2) ان آیتوں میں دوسری بات یہ فرمائی گئی ہے کہ ” وہ کفار اس بات کا مطالبہ کرتے تھے کہ جس طرح اور انبیاء کرام پر معجزات نازل کئے گئے ہیں نبی مکرم ﷺ پر کیوں نازل نہیں ہوئے تاکہ ہم ان کو دیکھ کر ایمان لے آتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب متعدد موقعوں پر ارشاد فرمایا ہے کہ اگر معجزات دکھانے پر ہی ایمان لانے کا دار و مدار ہے تو اس سے پہلے انبیاء کرام پر جب معجزات کو نازل کیا گیا تو ان کی قوموں نے ان کے معجزات کو دیکھ کر کیا ایمان قبول کرلیا تھا ؟ درحقیقت یہ ایک ایسا عذر ہے ” اگر ہم معجزہ دیکھ لیں تو ایمان لے آئیں گے ” کہ جس کی کوئی اصل اور بنیاد نہیں ہے۔ جس کو ایمان لانا ہوتا ہے اس کو معجزات کے مطالبہ کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ وہ دل کی گہرائیوں سے ایمان قبول کرتا ہے اور وہی پائدلار ہے۔ نبی کریم ﷺ سے بھی معجزات کا مطالبہ کیا گیا اور بلاشک و شبہ آپ سے بہت سے معجزات صادر ہوئے جن سے احادیث کی کتابیں بھری پڑی ہیں لیکن حضور اکرم ﷺ کا سب سے بڑا معجزہ تو یہ قرآن کریم ہے جس کے سامنے عرب کے وہ بڑے سے بڑے شاعر بھی عاجز ہو کر رہ گئے تھے جو زبان پر قدرت رکھنے کی وجہ سے اپنے علاوہ ساری دنیا کو ” عجم “ کو گونگا کہتے تھے لیکن یہ قرآن کریم کا کتنا بڑا معجزہ ہے کہ دنیا کو گونگا کہنے والے قرآن کریم کے چیلنج کے باوجود قرآن کریم کے سامنے گونگے ہو کر رہ گئے تھے۔ 3) تیسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کی زبان مبارک سے کہلوا دیا کہ اے نبی ﷺ ! آپ ان سے کہہ دیجیے کہ غیب کا سارا علمت واللہ ہی کو ہے تمہارے مطالبہ میں انتظار تو کرسکتا ہوں اور کروں گا تم بھی منتظر ہو کر تمہارے مطالبہ کا جواب کیا آتا ہے لیکن پھر وہ غیب سے کیا آنے والا ہے اسکا مجھے علم نہیں ہے ۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ” عالم الغیب ‘ صرف اللہ کی ذات ہوتی ہے۔ اللہ کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے انبیاء کرام میں سے جس کو چاہتا ہے غیب کی خبریں دیتا ہے۔ ہمارا اس بات پر ایمان ہے کہ غیب کی خبریں جتنی نبی کریم ﷺ کو عطا فرمائی گی ہیں اتنی کسی کو عطا نہیں کی گئیں۔ مگر اس سے نبی کریم ﷺ کو ” عالم الغیب “ کہنا قرآن کی آیات کا صریح انکار ہے۔
Top