Tafheem-ul-Quran - Yunus : 19
وَ مَا كَانَ النَّاسُ اِلَّاۤ اُمَّةً وَّاحِدَةً فَاخْتَلَفُوْا١ؕ وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَقُضِیَ بَیْنَهُمْ فِیْمَا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ
وَمَا كَانَ : اور نہ تھے النَّاسُ : لوگ اِلَّآ : مگر اُمَّةً وَّاحِدَةً : امت واحد فَاخْتَلَفُوْا : پھر انہوں نے اختلاف کیا وَلَوْ : اور اگر لَا : نہ كَلِمَةٌ : بات سَبَقَتْ : پہلے ہوچکی مِنْ : سے رَّبِّكَ : تیرا رب لَقُضِيَ : تو فیصلہ ہوجاتا بَيْنَھُمْ : ان کے درمیان فِيْمَا : اس میں جو فِيْهِ : اس میں يَخْتَلِفُوْنَ : وہ اختلاف کرتے ہیں
ابتداءً سارے انسان ایک ہی اُمّت تھے ، بعد میں انہوں نے مختلف عقیدے اور مسلک بنا لیے25، اور اگر تیرے ربّ کی طرف سے پہلے ہی ایک بات طے نہ کر لی گئی ہوتی تو جس چیز میں وہ باہم اختلاف کر رہے ہیں اس کا فیصلہ کر دیا جاتا۔26
سورة یُوْنُس 25 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورة بقرہ، 230، الانعام، حاشیہ نمرب 24۔ سورة یُوْنُس 26 یعنی اگر اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی یہ فیصلہ نہ کرلیا ہوتا کہ حقیقت کو انسانوں کے حواس سے پوشیدہ رکھ کر ان کی عقل و فہم اور ضمیر و وجدان کو آزمائش میں ڈالا جائے گا، اور جو اس آزمائش میں ناکام ہو کر غلط راہ پر جانا چاہیں گے انہیں اس راہ پر جانے اور چلنے کا موقع دیا جائے گا، تو حقیقت کو آج ہی بےنقاب کر کے سارے اختلافات کا فیصلہ کیا جاسکتا تھا۔ یہاں یہ بات ایک بڑی غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے بیان کی گئی ہے۔ عام طور پر آج بھی لوگ اس الجھن میں ہیں اور نزول قرآن کے وقت بھی تھے کہ دنیا میں بہت سے مذہب پائے جاتے ہیں اور ہر مذہب والا اپنے ہی مذہب کو حق سمجھتا ہے۔ ایسی حالت میں آخر اس فیصلے کی صورت کیا ہے کہ کون حق پر ہے اور کون نہیں۔ اس کے متعلق فرمایا جا رہا ہے کہ یہ اختلاف مذاہب دراصل بعد کی پیداوار ہے۔ ابتداء میں تمام نوع انسانی کا مذہب ایک تھا اور وہی مذہب حق تھا۔ پھر اس حق میں اختلاف کر کے لوگ مختلف عقیدے اور مذہب بناتے چلے گئے۔ اب اگر اس ہنگامہ مذاہب کا فیصلہ تمہارے نزدیک عقل و شعور کے صحیح استعمال کے بجائے صرف اسی طرح ہوسکتا ہے کہ خدا خود حق کو بےنقاب کر کے سامنے لے آئے تو یہ موجودہ دنیوی زندگی میں نہیں ہوگا۔ دنیا کی یہ زندگی تو ہے ہی امتحان کے لیے، اور یہاں سارا امتحان اسی بات کا ہے کہ تم حق کو دیکھے بغیر عقل و شعور سے پہچانتے ہو یا نہیں۔
Top