Madarik-ut-Tanzil - Yunus : 19
وَ مَا كَانَ النَّاسُ اِلَّاۤ اُمَّةً وَّاحِدَةً فَاخْتَلَفُوْا١ؕ وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَقُضِیَ بَیْنَهُمْ فِیْمَا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ
وَمَا كَانَ : اور نہ تھے النَّاسُ : لوگ اِلَّآ : مگر اُمَّةً وَّاحِدَةً : امت واحد فَاخْتَلَفُوْا : پھر انہوں نے اختلاف کیا وَلَوْ : اور اگر لَا : نہ كَلِمَةٌ : بات سَبَقَتْ : پہلے ہوچکی مِنْ : سے رَّبِّكَ : تیرا رب لَقُضِيَ : تو فیصلہ ہوجاتا بَيْنَھُمْ : ان کے درمیان فِيْمَا : اس میں جو فِيْهِ : اس میں يَخْتَلِفُوْنَ : وہ اختلاف کرتے ہیں
اور (سب) لوگ پہلے ایک ہی امت (یعنی ایک ہی ملت پر) تھے۔ پھر جدا جدا ہوگئے اور اگر ایک بات جو تمہارے پروردگار کی طرف سے پہلے ہوچکی ہے نہ ہوتی تو جن باتوں میں وہ اختلاف کرتے ہیں ان میں فیصلہ کردیا جاتا۔
سب کا ایک دین : 19: وَمَا کَانَ النَّاسُ اِلَّااُمَّۃً وَّاحِدَۃً (پہلے انسان ایک ہی جماعت تھے) سب سے کٹ کر ایک اللہ تعالیٰ کے متقی بندے ایک ملت پر قائم تھے۔ ان میں کوئی اختلاف نہ تھا۔ یہ آدم (علیہ السلام) کے زمانہ کی بات ہے جب تک کہ ہابیل کا قتل پیش نہ آیا۔ نمبر 2۔ طوفان نوح (علیہ السلام) کے بعد جبکہ فقط مومن باقی رہ گئے کوئی کافر نہ رہا۔ اس وقت لوگ ایک دین پر تھے۔ دنیا امتحان گاہ ہے نہ کہ فیصلہ گاہ : فَاخْتَلَفُوْا (پھر وہ الگ الگ ہوگئے) پس وہ مذاہب میں بٹ گئے۔ وَلَوْلَاکَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّکَ (اگر آپ کے رب کی طے شدہ بات پہلے سے نہ ہوتی) وہ بات حکم کو قیامت تک کیلئے مؤخر کرنا ہے۔ لَقُضِیَ بَیْنَھُمْ (تو ان کے مابین کبھی کا فیصلہ ہوچکا ہوتا) یعنی جلدی سے فِیْمَا فِیْہِ یَخْتِلفُوْنَ (جس چیز میں وہ اختلاف کرتے تھے) اس بات میں جس میں انہوں نے اختلاف کیا۔ تاکہ حق پرست اور باطل پرست میں امتیازہو جائے۔ اللہ تعالیٰ کی بات اس حکمت کی بناء پر پہلے سے طے ہوچکی کہ یہ دنیا دار التکلیف ہے اور اگلا جہاں ثواب و عقاب کا مقام ہے۔
Top