Al-Qurtubi - Yunus : 19
وَ مَا كَانَ النَّاسُ اِلَّاۤ اُمَّةً وَّاحِدَةً فَاخْتَلَفُوْا١ؕ وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَقُضِیَ بَیْنَهُمْ فِیْمَا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ
وَمَا كَانَ : اور نہ تھے النَّاسُ : لوگ اِلَّآ : مگر اُمَّةً وَّاحِدَةً : امت واحد فَاخْتَلَفُوْا : پھر انہوں نے اختلاف کیا وَلَوْ : اور اگر لَا : نہ كَلِمَةٌ : بات سَبَقَتْ : پہلے ہوچکی مِنْ : سے رَّبِّكَ : تیرا رب لَقُضِيَ : تو فیصلہ ہوجاتا بَيْنَھُمْ : ان کے درمیان فِيْمَا : اس میں جو فِيْهِ : اس میں يَخْتَلِفُوْنَ : وہ اختلاف کرتے ہیں
اور (سب) لوگ پہلے ایک ہی امت (یعنی ایک ہی ملت پر) تھے۔ پھر جدا جدا ہوگئے اور اگر ایک بات جو تمہارے پروردگار کی طرف سے پہلے ہوچکی ہے نہ ہوتی تو جن باتوں میں وہ اختلاف کرتے ہیں ان میں فیصلہ کردیا جاتا۔
آیت نمبر : 19۔ اس کا معنی سورة البقرہ میں پہلے گزر چکا ہے اور اعادہ کی ضرورت نہیں، اور زجاج نے کہا ہے : وہ عرب شرک پر تھے، اور یہ بھی کہا گیا ہے : ہر بچہ فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے، پھر وہ بالغ ہونے کے وقت مختلف ہوجاتے ہیں۔ (آیت) ” ولولا کلمۃ سبقت من ربک لقضی بینھم فیما فیہ یختلفون “۔ یہ قضاء وقدر کی طرف اشارہ ہے، یعنی اگر اس کے حکم میں پہلے سے نہ ہوتا کہ وہ ان کے درمیان ان امور میں قیامت سے فیصلہ نہیں کرے گا جن ثواب و عقاب کے اعتبار سے وہ اختلاف کرتے ہیں تو ان کے درمیان دنیا میں فیصلہ کردیا جاتا، پس وہ مومنوں کو ان کے اعمال کے عوض جنت میں اور کافروں کو ان کے اعمال کے بدلے جہنم میں داخل کردیتا، لیکن اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان کے کرتوتوں کا علم رکھنے کے باوجود پہلے ایک مدت مقرر ہے اور اس نے ان کے لیے جائے وعدہ قیامت کو بنا رکھا ہے۔ (1) (معالم التنزیل، سورة یونس، جلد 3، صفحہ 146 ) ۔ یہ حسن نے کہا ہے۔ اور ابو روق نے کہا ہے : (آیت) ” لقضی بینھم “۔ تو ان پر قیامت قائم کردیتا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : تو وہ ان کی ہلاکت سے فارغ ہوچکا ہوتا۔ اور کلبی (رح) نے کہا ہے : الکلمۃ “ ، یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو مہلت دی ہے کہ وہ انہیں دنیا میں یوم قیامت تک عذاب کے ساتھ ہلاک نہیں کرے گا، پس اگر یہ مہلت نہ ہوتی تو ان کے درمیان عذاب نازل کرتے یا قیامت قائم کرکے فیصلہ کردیا جاتا۔ اور یہ آیت حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کے لیے باعث تسلی ہے ان لوگوں سے عذاب کی تاخیر کے بارے میں جنہوں نے آپ کے ساتھ کفر اختیار کیا، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کلمہ سابقہ یہ ہے کہ وہ کسی کو بغیر حجت اور دلیل کے نہیں پکڑے گا اور وہ رسولوں کو بھیجنا ہے، جیسا کہ ارشاد فرمایا : (آیت) ” وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا “۔ (الاسرائ) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ الکلمہ سے مراد اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے : سبقت رحمتی غضبی (1) (صحیح بخاری کتاب الوحید، جلد 2، صحہ 1127) (میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی ہے) اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ گنہگاروں کو توبہ کی مہلت نہ دیتا، اور عیسیٰ نے لقضی کو فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔
Top