Mafhoom-ul-Quran - Yunus : 19
وَ مَا كَانَ النَّاسُ اِلَّاۤ اُمَّةً وَّاحِدَةً فَاخْتَلَفُوْا١ؕ وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَقُضِیَ بَیْنَهُمْ فِیْمَا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ
وَمَا كَانَ : اور نہ تھے النَّاسُ : لوگ اِلَّآ : مگر اُمَّةً وَّاحِدَةً : امت واحد فَاخْتَلَفُوْا : پھر انہوں نے اختلاف کیا وَلَوْ : اور اگر لَا : نہ كَلِمَةٌ : بات سَبَقَتْ : پہلے ہوچکی مِنْ : سے رَّبِّكَ : تیرا رب لَقُضِيَ : تو فیصلہ ہوجاتا بَيْنَھُمْ : ان کے درمیان فِيْمَا : اس میں جو فِيْهِ : اس میں يَخْتَلِفُوْنَ : وہ اختلاف کرتے ہیں
اور سب لوگ پہلے ایک ہی امت تھے پھر جدا جدا ہوگئے اور اگر ایک بات جو تمہارے رب کی طرف سے طے ہوچکی ہے، نہ ہوتی، تو جن باتوں میں وہ اختلاف کرتے ہیں ان کے درمیان فیصلہ کردیا جاتا۔
فوری سزا نہ دینے کی حکمت تشریح : ان آیات میں انسانی فطرت کا ایک اور پہلو ظاہر کیا گیا ہے ، یعنی شروع میں انسان ایک ہی ملت ، ایک ہی مذہب اور ایک ہی والدین کی اولاد تھے۔ پھر انکی تعداد بڑھنا شروع ہوگئی اور وہ اپنی ایک علیحدہ پہچان کے لیے گھر، خاندان، قبیلہ، محلہ، شہر اور پھر ملک میں تقسیم ہوتے چلے گئے۔ اور آہستہ آہستہ توحید کا وہ سبق جو ان کو ان کے والدین حضرت آدم و حضرت حوا (علیہما السلام) کی طرف سے دیا گیا تھا اور اللہ کی طرف سے دل و دماغ میں ڈال دیا گیا تھا۔ ماحول، تربیت اور سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے تبدیل ہونا شروع ہوگیا۔ جیسا کہ ارسطو نے انسان کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے : ” انسان پیدائشی طور پر ایک سیاسی حیوان ہے۔ “ (ارسطو کی سیاسیات 1253 ۔ الف) جب وہ کسی ایسے والدین کے گھر پیدا ہوتا ہے جو کہ توحید کے سبق کو بھلا چکے ہوتے ہیں تو وہ بھی ان کے زیر اثر اس سبق کو بھلا دیتا ہے جو اللہ نے اس کی فطرت میں ڈال رکھا تھا۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں۔ ” کوئی بچہ نہیں جو فطرت اسلام پر پیدا نہ کیا گیا ہو، لیکن اکثر ہوتا یہ ہے کہ اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ (صحیح بخاری) یعنی فطرت انسانی کی جڑ اور بنیاد اسلام اور توحید پر ہی ہے۔ اس لیے اگر اس پر باہر کا ماحول اثر انداز نہ ہوتا تو وہ بڑا ہو کر یقینا مسلمان ہی ہوتا۔ مگر یہ ماحول کا اثر قبول کرنا انسان کی مجبوری ہے۔ اسی مجبوری کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے وقتاً فوقتاً رسول اور پیغمبر بھیجے کہ انسان اپنے بھلائے ہوئے سبق کو پہچان سکے۔ جو بھی فطرتاً نیک ہوتا ہے وہ اس آواز حق کی طرف بےاختیار بھاگ پڑتا ہے۔ جیسا کہ مکہ کے وحشی بدو بھی اسی کفر کی روش کو بدلنے پر مجبور ہوگئے، یعنی انسان فطرتاً توحید پسند ہے اور یہی سبق بار بار قرآن پاک میں بھی دیا گیا ہے اور حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضرت محمد ﷺ تک یہی سبق یاد دلایا گیا ہے۔ کفار نے آپ کو بےحد پریشان کیا اگر اللہ چاہتا تو ان کو فوراً ہی نیست و نابود کردیتا لیکن یہ اللہ کی مرضی اور حکمت کے خلاف ہے وہ ان کفار کو مہلت دیتا ہے کہ ایمان کی روشنی سے منور ہوتے رہیں جیسا کہ حضرت عمر ؓ کو اللہ نے ایمان کی دولت سے مالا مال کردیا۔ اہل قریش کے بڑے بڑے سردار اور بیشمار قبیلے مسلمان ہوگئے اور آج کل بھی اکثر و بیشتر دیکھنے میں آتا ہے کہ کئی لوگ مسلمان ہو رہے ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ اس عذاب کو نازل نہیں فرماتا جس کے لیے کفار بار بار نبی اکرم ﷺ کو کہتے ہیں کہ اگر آپ سچ کہہ رہے ہیں تو پھر وہ عذاب کب آئے گا جس کا ذکر آپ کرتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : کہ یہ سب معاملات اللہ تعالیٰ نے طے کر رکھے ہیں۔ وقت مقررہ پر عذاب ضرور آجائے گا۔ عذاب کا آنا یا نہ آنا یہ سب اللہ کی حکمتوں اور مرضی پر منحصر ہے۔ اگر تم حد سے گزر گئے اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو پھر دیکھ لینا عذاب بھی ضرور آجائے گا۔ جو وقت اللہ نے اس کے لیے مقرر کر رکھا ہے۔ اس کو تو کوئی ٹال نہیں سکتا تم اگر اللہ کے راستے کو اختیار کرلو تو تمہارا اپنا ہی فائدہ ہے۔ جو مہلت ملی ہے اس سے فائدہ اٹھا لو۔ ورنہ تم بھی انتظار کرو اپنی شامت اعمال کا۔ اور میں بھی تمہارا انجام دیکھنے کا انتظار کرتا ہوں۔
Top