Jawahir-ul-Quran - Yunus : 19
وَ مَا كَانَ النَّاسُ اِلَّاۤ اُمَّةً وَّاحِدَةً فَاخْتَلَفُوْا١ؕ وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَقُضِیَ بَیْنَهُمْ فِیْمَا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ
وَمَا كَانَ : اور نہ تھے النَّاسُ : لوگ اِلَّآ : مگر اُمَّةً وَّاحِدَةً : امت واحد فَاخْتَلَفُوْا : پھر انہوں نے اختلاف کیا وَلَوْ : اور اگر لَا : نہ كَلِمَةٌ : بات سَبَقَتْ : پہلے ہوچکی مِنْ : سے رَّبِّكَ : تیرا رب لَقُضِيَ : تو فیصلہ ہوجاتا بَيْنَھُمْ : ان کے درمیان فِيْمَا : اس میں جو فِيْهِ : اس میں يَخْتَلِفُوْنَ : وہ اختلاف کرتے ہیں
اور لوگ جو ہیں34 سو ایک ہی امت ہیں پیچھے جدا جدا ہوگئے اور اگر نہ ایک بات پہلے ہو چکتی تیرے رب کی تو فیصلہ ہوجاتا ان میں جس بات میں کہ اختلاف کر رہے ہیں
34:“ فَاخْتَلَفُوْا ” کے بعد کا مضمون مقدر ہے۔ “ اي بعث اللہ النبیین الخ ” بقرینہ سورة بقرہ “ کَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَ ةً فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِیِّیْنَ الخ ” اور سورة بقرہ میں “ فَبَعثَ ” سے پہلے “ فَاخْتَلَفُوْا ” مقدر ہے بقرینہ آیت زیر تفسیر جیسا کہ سورة بقرہ کی تفسیر میں گذر چکا ہے (ص 101، حاشیہ نمبر 405) لوگوں کے امت واحدہ ہونے اور پھر مختلف گروہوں میں بٹ جانے کا مضمون قرآن مجید میں کئی جگہوں میں مذکور ہے۔ دنیا میں سب سے پہلے توحید تھی اور تمام لوگ توحید پر متفق تھے کیونکہ توحید دین فطرت ہے۔ اس کے بعد بد عمل اور بےدین لوگوں نے توحید میں اختلاف کیا اور محض ضد کی وجہ سے مسئلہ توحید کی حقانیت کو جانتے ہوئے اس کا انکار کیا۔ اس اختلاف کو مٹانے اور مسئلہ توحید کو واضح کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) کو بھیجا۔ قرآن مجید کی اس موضوع پر متعدد آیتوں کو یکجا کرنے سے حسب ذیل امور واضح طور سے معلوم ہوتے ہیں (1) اختلاف کن لوگوں نے کیا ؟ غلط کار اور باغی عالموں نے۔ (2) اختلاف کب کیا گیا ؟ جب آیات بینات سے توحید کو واضح کردیا گیا اور اختلاف کرنیوالوں کو مسئلہ توحید کی سچائی کا پورا پورا علم ہوگیا۔ یعنی علماء سوء نے جان بوجھ کر عمداً اور قصداً توحید میں اختلاف ڈالا۔ (3) اختلاف کیوں پیدا کیا گیا ؟ علماء سوء نے محض ضد وعناد اور دنیوی ریاست کی وجہ سے مسئلہ توحید کے مقابلے میں شرک کا محاذ کھولا اور توحید سے اختلاف کیا۔ پہلی بات سورة بقرہ میں مذکور ہے۔ “ وَ مَا اخْتَلَفَ فِیْه اِلَّا الَّذِیْنَ اُوْتُوْہُ مِنْ بَعْدِ مَاجَاءَتْھُمُ الْبَیِّنٰتُ بَغْیَاً بَیْنَھُمْ ” (بقرہ رکوع 26) ۔ یہاں اختلاف کو اہل علم کی جماعت میں منحصر کیا گیا۔ دوسری بات کو سورة آل عمران اور شوریٰ میں ذکر کیا گیا۔ “ وَ مَا خْتَلَفَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْا الکِتٰبَ اِلَّا مِنْ بَعْدِ مَاجَاءَھُمُ الْعِلْمُ بَغْیًا بَیْنَھُمْ ” (اٰل عمران رکوع 2) “ وَ مَا تَفَرَّقُوْا اِلَّا مِنْ بَعْدِ مَاجَاءَ ھُمُ الْعِلْمُ بَغْیًا بَیْنَھُمْ ”(شوری رکوع 2) ان دونوں آیتوں میں اہل کتاب کے اختلاف و تفرق کو مسئلہ توحید کا علم ہوجانے کے بعد کی حالت میں منحصر کر کے واضح کیا گیا ہے کہ اختلاف جہالت و نادانی کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ دیدہ و دانستہ محض ضد وعناد اور راہ حق سے بغاوت کی بناء پر تھا۔ تیسری بات ان تینوں آیتوں میں لفظ “ بَغْیًا ”“ اِخْتَلَفَ ” اور “ تَفَرَّقُوْا ” کا مفعول لہٗ ہے جو ان کے اختلاف و تفرق کی علت بیان کر رہا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر سورة آل عمران ص 147 حاشیہ 28 ۔
Top