Anwar-ul-Bayan - An-Nahl : 90
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِ١ۚ یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَاْمُرُ : حکم دیتا ہے بِالْعَدْلِ : عدل کا وَالْاِحْسَانِ : اور احسان وَاِيْتَآئِ : اور دینا ذِي الْقُرْبٰى : رشتہ دار وَيَنْهٰى : اور منع کرتا ہے عَنِ : سے الْفَحْشَآءِ : بےحیائی وَالْمُنْكَرِ : اور ناشائستہ وَالْبَغْيِ : اور سرکشی يَعِظُكُمْ : تمہیں نصیحت کرتا ہے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَذَكَّرُوْنَ : دھیان کرو
بلاشبہ اللہ عدل کا اور احسان کا اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور فحش کاموں سے اور برائیوں سے اور ظلم کرنے سے منع کرتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم نصیحت قبول کرو
چند اوصاف حمیدہ کا حکم، اور منکرات و فواحش سے بچنے کی تاکید یہ آیت بہت جامع ہے تمام مامورات (فرائض واجبات، مندوبات و مستحباب) کے حکم کو اور تمام منکرات (منہیات اور معاصی) کی ممانعت کو شامل ہے، اولاً یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں عدل کا حکم فرماتا ہے، عدل عربی میں انصاف کو کہا جاتا ہے جیسا کہ سورة مائدہ میں فرمایا (اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ للتَّقْوٰی) اپنے پرائے چھوٹے بڑے سب کے بارے میں انصاف کرنا لازم ہے جو شخص دشمنی کرے اس کی دشمنی کے جواب میں بھی عدل ہی کیا جائے دشمنی کی وجہ سے عدل کو ہاتھ سے جانے نہ دیں اگر کسی زیادتی کرنے والے سے بدلہ لے لینا ہو تو زیادتی کے بقدر ہی بدلہ لیا جاسکتا ہے اور معاف کردینا افضل ہے، عدل کا دوسرا معنی توسط یعنی افراط وتفریط کو چھوڑ کر میانہ روی اختیار کرنے کا بھی ہے اسی لیے بعض اکابر نے عدل کا ترجمہ اعتدال سے کیا ہے اس اعتبار سے عدل کا وہی مصداق ہوگا جو سورة بقرہ کی آیت (وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا) کی تفسیر میں حضرات اکابر نے بیان فرمایا اور وہاں ہم بھی اس کی تشریح لکھ چکے ہیں۔ صاحب روح المعانی نے بھی عدل کی تفسیر کرتے ہوئے اولاً اسی معنی کو بیان کیا ہے اور فرمایا ہے (ای بمراعاۃ التوسط بین طرفی الافراط والتفریط پھر کچھ تفصیل کے بعد ابن ابی حاتم سے محمد بن کعب قرظی کا بیان نقل کیا ہے کہ مجھے حضرت عمر بن عبد العزیز (رح) نے بلایا اور فرمایا کہ بتاؤں عدل کیا چیز ہے ؟ میں نے کہا واہ کیا خوب آپ نے تو بہت بڑی بات پوچھی، اس کے بعد عدل کا معنی بیان کرتے ہوئے کہا کہ تو چھوٹے کا باپ بن جائے اور بڑے کا بیٹا بن جائے اور برابر والے کا بھائی بن جائے اور لوگوں کے گناہوں کے بقدر اور ان کے جسموں کے برداشت کے بقدر سزا دے اور اپنے غصے کی وجہ سے ایک کوڑا بھی نہ مارو ورنہ تو ظلم کرنے والوں میں سے ہوجائے گا۔ حضرت سفیان بن عینیہ سے نقل کیا ہے۔ ان العدل استواء السریرۃ والعلانیۃ فی العمل (یعنی عدل یہ ہے کہ تنہائی میں ہو یا سب کے سامنے ایک طرح کا عمل ہو۔ ) ثانیاً احسان کا حکم فرمایا لفظ احسان حسن سے ماخوذ ہے اور باب افعال کا مصدر ہے، حسن خوبی اور اچھائی کو کہتے ہیں اور کسی کام کو اچھے طریقے پر انجام دینے کو احسان کہا جاتا ہے، عبادات میں احسان کی صفت ہو اور معاملات میں بھی، رشتہ داروں کے ساتھ بھی اور دوسرے انسانوں کے ساتھ بھی، اس اجمال کی تفصیل کے لیے آیت کریمہ (وَ اَحْسِنُوْا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ) کی تفسیر ملاحظہ کرلی جائے۔ ثالثاً اپنے رشتہ داروں اور دوسرے انسانوں پر مال خرچ کرنا، یہ بھی بڑے ثواب کی چیز ہے اور صفت احسان میں یہ بھی داخل ہے لیکن مستقل طریقے پر اس کو علیحدہ بھی ذکر فرمایا کیونکہ اس میں دوہرا ثواب ہے صلہ رحمی کا بھی اور صدقہ کا بھی، اور ان لوگوں کو بھی تنبیہ ہے جو دنیا بھر سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اپنوں سے بگاڑ رکھتے ہیں اور اپنوں پر ایک پیسہ بھی خرچ کرنا گوارا نہیں کرتے، باپ کی طرف سے رشتہ دار ہوں یا ماں کی طرف سے ہوں لفظ قُرْبیٰ سب کو شامل ہے ماں باپ اولاد بہن بھائی چچا پھوپھی، خالہ ماموں اور ان کی اولاد سب ذوی القربی ہیں بعض حالات میں ذوی القربی پر مال خرچ کرنا واجب ہوتا ہے اور بعض حالات میں مستحب ہوتا ہے، تفصیلات کے لیے کتب فقہ کی طرف مراجعت کی جائے۔ مامورات کے بعد منہیات کا ذکر فرمایا (وَ یَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْکَرِ وَ الْبَغْیِ ) اس میں بھی تین چیزیں تمام ممنوعات و محظورات اور معاصی اور منکرات کو شامل ہیں شریعت کی اصطلاح میں ہر گناہ پر لفظ منکر کا اطلاق ہوتا ہے فحشاء اور بغی بھی اس کے عموم میں داخل ہیں، لیکن الگ سے ان دونوں کو بھی ذکر فرمایا ایک مرتبہ عمومی طور پر اور ایک مرتبہ خصوصی طور پر ان کی ممانعت فرما دی فحشاء اس قول و فعل کو شامل ہے جس میں بےشرمی اور بےحیائی ہوزنا اور قضائے شہوت کے لیے جو بھی ممنوع فعل کیا جائے اور ایسے افعال کے اسباب اور دواعی سب کو لفظ فحشاء شامل ہے، علامہ قرطبی لکھتے ہیں ھو کل قبیح من قول او فعل اور بغی ظلم اور زیادتی کے معنی میں آتا ہے ظلم کی جتنی بھی صورتیں ہیں آیت کریمہ نے ان سب کو ممنوع قرار دیا ہے۔ امیر المومنین کی بغاوت کرنا، مال چھین لینا، چوری کرنا، ڈاکہ ڈالنا، جن کے حقوق واجب ہیں ان کو روک لینا، ماں باپ کو تکلیف دینا، ان کی نافرمانی کرنا یہ سب بغی میں داخل ہے۔ سورۂ حجرات میں فرمایا (وَاِِنْ طَاءِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا فَاِِنْ بَغَتْ اِِحْدَاھُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِیْٓءَ اِِلٰی اَمْرِ اللّٰہِ فَاِِنْ فَاءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا بالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ) (اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرادو پھر اگر ان میں سے زیادتی کرے ایک فریق دوسرے پر تو تم سب لڑو اس سے جو زیادتی کرتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف رجوع کرے پھر اگر وہ رجوع کرے تو ان میں برابری کے ساتھ صلح کرا دو ، اور انصاف کرو، بیشک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے) حضرت ابوبکر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جتنے بھی گناہ ہیں ان میں سے بغی، ظلم و زیادتی اور قطع رحمی ایسی چیزیں ہیں جو سب سے زیادہ اس بات کی مستحق ہیں کہ ان کے کرنے والے کو اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی جلدی ہی عذاب دیدے اور آخرت میں بھی اس کے لیے عذاب باقی رکھ لے۔ (رواہ الترمذی و ابوداؤد کما فی المشکوٰۃ ص 420) حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے ارشاد فرمایا کہ قرآن مجید کی یہ آیت دیگر تمام آیات کی بنسبت خیر و شر کے تذکرہ کے لیے سب سے زیادہ جامع ہے کیونکہ اس میں ہر خیر کا حکم ہے اور ہر برائی سے روک دیا گیا ہے مامورات اور منہیات کا ذکر فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا (یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ ) (اللہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم نصیحت قبول کرو) اس میں عمل کرنے کی طرف توجہ دلائی اور یہ فرمایا کہ یہ بات سن کر اور پڑھ کر اپنے کو فارغ نہ سمجھ لو بلکہ عمل بھی کرو۔ خطبوں میں اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَان پڑھنے کی ابتداء عام طور پر جمعہ کے خطبوں میں خطیب حضرات آیت بالا کو پڑھتے ہیں اس کی ابتداء حضرت عمر بن عبد العزیز (رح) سے ہوئی، علامہ سیوطی نے تاریخ الخلفاء میں لکھا ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز (رح) سے پہلے امرائے بنو امیہ اپنے خطبوں میں حضرت علی ؓ کو برا بھلا کہتے تھے جب حضرت عمر بن عبد العزیز (رح) خلیفہ ہوئے تو اس طریقہ کو ختم فرما دیا اپنے گورنروں کو بھی لکھ دیا کہ ایسا نہ کریں اور اس کی جگہ آیت بالا کو پڑھنا شروع فرما دیا اس وقت سے آج تک یہ طریقہ جاری ہے، تقریباً پورے عالم میں اس پر عمل کیا جاتا ہے، البتہ کبھی کبھی چھوڑ دینا چاہیے تاکہ عامۃ الناس اس کو خطبہ کا جزو لازم نہ سمجھ لیں۔
Top