Tafseer-e-Haqqani - An-Nahl : 90
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِ١ۚ یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَاْمُرُ : حکم دیتا ہے بِالْعَدْلِ : عدل کا وَالْاِحْسَانِ : اور احسان وَاِيْتَآئِ : اور دینا ذِي الْقُرْبٰى : رشتہ دار وَيَنْهٰى : اور منع کرتا ہے عَنِ : سے الْفَحْشَآءِ : بےحیائی وَالْمُنْكَرِ : اور ناشائستہ وَالْبَغْيِ : اور سرکشی يَعِظُكُمْ : تمہیں نصیحت کرتا ہے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَذَكَّرُوْنَ : دھیان کرو
ضرور اللہ انصاف کرنے کا اور سلوک کرنے کا اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بےحیائی اور بری بات اور ظلم سے منع کرتا ہے۔ تمہیں سمجھاتا ہے تاکہ تم سمجھو
تفسیر : روز حشر کی کیفیت کے بعد وہ باتیں ذکر فرماتا ہے کہ جن پر عمل کرنے سے محشر میں کامیابی ہو۔ ان اللہ الخ اس آیت میں انسان کے مکارم اخلاق و تدبیر منزل سیاست مدن کے سب مسائل آگئے جن کی تفصیل کو ایک دفتر درکار ہے انسان کے یا تو وہ معاملات ہیں جو خدا تعالیٰ سے متعلق ہیں عقائدِ صحیحہ و اعمال صالحہ یا وہ ہیں جو باہم آپس میں ایک دوسرے کے متعلق ہیں بیع شراء ‘ سیاست ملک ‘ والدین و اولاد اقارب کے ساتھ برتائو۔ ان دونوں قسموں کے پھر صدہا اقسام ہیں پس ان سب کو برابر اور پورا پورا ادا کرنا عدل ہے۔ یہ عبادات معاملات سب میں ہے یہ حکم سب پر فرض ہے۔ اس کے بعد اس پر ایک عمدگی کا رتبہ ہے جس کو احسان کہتے ہیں۔ عبادات میں احسان کی تفسیر نبی ﷺ نے فرمائی تعبداللہ کانک تراہ (الحدیث رواہ البخاری) کہ اللہ کی عبادت کرنے میں یہ خیال کر کہ میں اس کو دیکھ رہا ہوں اگر یہ نہ ہو تو یوں خیال کر کہ وہ مجھے دیکھ رہا ہے اور معاملات میں احسان اپنے حقوق اور انتقام سے درگزر کرنا غیر کو اس کے استحقاق سے زیادہ نفع پہنچانا جیسا کہ بعض احادیث میں آیا ہے کہ جو تجھے گالی دے تو اس کو دعا دے جو تجھ سے توڑے تو اس سے رشتہ محبت جوڑ چونکہ اس احسان میں زیادہ تر منظور نظر اہل قرابت ہیں ان سے سلوک کرنے کی بھی تیسری مرتبہ میں تصریح فرمائی اسی طرح ان تینوں باتوں کے مقابلوں میں تین چیزوں سے منع کیا۔ اول فحش سے خواہ وہ زبان سے ہو ‘ گالی دینا، بےشرمی کی باتیں کرنا یا افعال سے جیسا کہ زنا ‘ لواطت وغیرہا یہ قوت شہوانیہ کا اثر ہے۔ پھر منکر سے یعنی ناپسند باتوں سے جو قوت غضبیہ کا اثر ہے۔ پھر بغی سرکشی سے جو قوت و ہمانیہ کا اثر ہے اور یہی تین قوتیں انسان کو ہلاکت میں ڈالتی ہیں۔ یہ ایسی جامع آیت ہے کہ کوئی بات اس میں رہ نہیں گئی عثمان بن مظعون ؓ وغیرہ بہت سے لوگ اس آیت کی وجہ سے مشرف بہ اسلام ہوئے اس کے بعد قسم اور عہد کی پابندی کی تاکید فرماتا ہے جس پر تمام دینی و دنیاوی کاموں کا دارومدار ہے اور فرماتا ہے کہ قسم کھا کر نہ توڑو جس طرح کوئی بیوقوف عورت سوت کات کر توڑ ڈالے۔ بعض کہتے ہیں کہ قریش میں ایک ایسی عورت تھی۔ بعض کہتے ہیں محض تمثیل مقصود ہے کسی خاص عورت کی طرف اشارہ نہیں۔ جاہلیت میں ایک قوم سے ہم قسم ہونے کے بعد جب ان کے مقابلہ میں دوسری زیادہ قوم کو دیکھتے تھے تو قسم توڑ کر ان کے ساتھ ہوجاتے تھے اس سے بھی منع کرتا ہے کہ یہ آزمائش کا مقام ہے۔ عہد سے ہر عہد عموماً مراد ہے مگر اس میں بالخصوص اس عہد الست اور اس کے بعد عہد یعنی بیعت کی طرف بھی ایماء ہے جو مسلمانوں نے رسول کریم سے بوقت قبول اسلام باندھا تھا کہ جو کچھ ہو اس پر ثابت رہنا اور اس کے مقابلہ میں جو کفار اسلام سے پھر پھیر لانے میں شبہات و شکوک پیش کریں ان کی طرف التفاف نہ کرنا کیونکہ وہ سب ملمع کاری ہے جس کو اللہ قیامت میں تخت ِ عدالت کے سامنے کھول دے گا۔ ان آیات میں کس خوبی کے ساتھ معاد کے مسئلہ کو احکام مفیدہ کے بعد بیان فرمایا ہے۔
Top