Asrar-ut-Tanzil - An-Nahl : 90
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِ١ۚ یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَاْمُرُ : حکم دیتا ہے بِالْعَدْلِ : عدل کا وَالْاِحْسَانِ : اور احسان وَاِيْتَآئِ : اور دینا ذِي الْقُرْبٰى : رشتہ دار وَيَنْهٰى : اور منع کرتا ہے عَنِ : سے الْفَحْشَآءِ : بےحیائی وَالْمُنْكَرِ : اور ناشائستہ وَالْبَغْيِ : اور سرکشی يَعِظُكُمْ : تمہیں نصیحت کرتا ہے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَذَكَّرُوْنَ : دھیان کرو
بیشک اللہ انصاف اور احسان کرنے اور رشتہ داروں کو (حسب توفیق) دینے کا حکم فرماتے ہیں اور بےحیائی اور برائی اور سرکشی سے منع فرماتے ہیں وہ تمہیں اس لئے نصیحت فرماتے ہیں تاکہ تم نصیحت قبول کرو
(رکوع نمبر 13) اسرارومعارف پھر کتاب اللہ جل جلالہ کی تعلیمات کی خوبی اور کمال دیکھئے کہ ذرا بھی عقل سلیم نصیب ہو ایسی تعلیمات کا انکار نہیں کیا جاسکتا ، یہاں ایک آیہ مبارکہ میں قرآنی تعلیمات کا سارا خلاصہ اور حاصل ارشاد فرما دیا گیا ۔ (عدل) کہ اللہ جل جلالہ تین باتوں کے کرنے کا حکم دیتے ہیں ، عدل ، احسان اور (آیت) ” ایتای ذالقربی “ برابر کرنے کے معنوں میں آتا ہے ، اسی لیے جھگڑے میں فیصلے کو عدل کہا جاتا ہے یعنی افراط وتفریط سے بچ کر اعتدال کا حسین راستہ ، یعنی سب سے پہلے بندہ اپنے اور اپنے رب کے درمیان عدل کرے کہ اللہ جل جلالہ کی رضا کو خواہشات نفس پر مقدم رکھے اور اس کے احکام کی تعمیل میں پوری کوشش کرے اپنے نفس کے ساتھ عدل یہ ہے کہ اس کی ضروریات کو پورا کرنے کا اہتمام کرے ، اور جن خواہشات میں اس کی ہلاکت ہو ان سے بچانے کی بھرپور کوشش کرے ایسے ہی اپنے اور دوسرے لوگوں کے درمیان عدل یہ ہے کہ سب کے حقوق ادا کرے اور اپنا حق تو حاصل کرے مگر زیادہ کا مطالبہ نہ کرے ، ایسے ہی معاملات یا جھگڑوں میں ناروا رعایت یا طرفداری نہ کرے ، غرض عقیدہ ، عمل اور اخلاقیات سب میں عدل مطلوب ہے ۔ (احسان) دوسرا حکم احسان کا ہے اور یہ حکم ہی سارے عمل کی روح ہے احسان سے مراد ہے کہ جو کردار ہو وہ کیفیات قلبی کا آئینہ دار ہو اور پورے خلوص سے عمل کیا جائے محض دکھانے کو یا شہرت حاصل کرنے کو نہ کیا جائے ، جیسا کہ حدیث احسان کا حاصل یہ ہے کہ اللہ جل جلالہ کی عبادت ایسے کرو گویا تم اللہ جل جلالہ کو دیکھ رہے ہو اگر یہ کیفیت قلب کی ہوتی ہے ، جس کے لیے مجاہدہ تو کیا جاسکتا ہے مگر عطا وہبی طور پر ہوتی ہے کہ یہ از قسم ثمرات ہے اور ثمرات ہمیشہ وہبی ہوتے ہیں ، یعنی اللہ کریم کی طرف سے عطا فٹ سے ہوجاتے ہیں ، یہی دولت صحبت نبوی ﷺ سے تقسیم ہوئی ، تعلیمات تو آپ ﷺ نے زبانی ارشاد فرمائیں ، مگر صحابی صرف وہ شخص بن سکا جسے فیض صحبت نصیب ہوا اور صحابیت کے طفیل انہیں یہ استحضار کا درجہ نصیب ہوتی ہے اور جوں جوں ترقی درجات نصیب ہوتی ہے ، یہ کیفیت زیادہ ہوتی جاتی ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ جس قدر اضافہ اس کیفیت میں ہوتا ہے ، درجات ومنازل بلند ہوتے چلے جاتے ہیں ، مجاہدہ کا تعلق اپنی ذات سے ہے کہ محنت سے اپنے قلب کی صفائی کرتا ہے اور شیخ کی صحبت کے اثر سے اس میں کیفیات پیدا ہوتی ہیں جو منتقل کرنا اللہ جل جلالہ کا اپنا کام ہے ۔ (ایتاء ذی القربی) کا حاصل یہ ہے رشتہ داری کے حقوق ادا کرے جس کا معنی یہ سمجھ میں آتا ہے کہ محض اس لیے ان سے احسان نہ کرے کہ وہ اس کی عزت کرتے ہیں یا اچھے لوگ ہیں بلکہ ان کی طرف سے ناخوشگوار سلوک پر بھی درگزر کرے ، اور رشتہ داری کے سبب یا صلہ رحمی کہہ لیجئے کے باعث ان سے حسن سلوک کرے ، اور تین کاموں سے منع فرمایا ہے اول۔ (فحشائ) : ایسا عمل جس کا برا ہونا معروف ہو ، جیسے آپ عالمگیر برائی کہہ سکتے ہیں جیسے جھوٹ یا چوری وغیرہ اور دوسرے منکر ، (منکر) اس سے مراد وہ افعال ہیں جن کے گناہ اور ممنوع ہونے پر اہل شریعت کا اتفاق ہے خواہ وہ ظاہری ہوں جیسے عمل میں یا باطنی جیسے عقیدہ میں اور جس بات پر اجتہادی اختلاف ہو اس کی کسی جانب کو بھی منکر نہ کہا جائے گا ، تیسری بات ہے ، بغی “۔ (بغی) ایسے فعل کو کہا جائے جس کا اثر متعدی ہو ، یعنی دوسروں کے حقوق اس سے متاچر ہوتے ہوں اور عالم میں خرابی پیدا ہوتی ہو ، فساد کی آگ بھڑکتی ہو ، ایسے گناہ بغاوت شمار ہوتے ہیں غرض انسانی معاشرے کے لیے بہترین اصول اس میں سمو دیئے کہ تین کام کرنے کے ہیں اور تین کاموں سے رکنے کا حکم ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو جس میں ساری انسانیت کی بہتری اور انسان کی ذاتی فلاح ہے ۔ اور اللہ جل جلالہ کے وعدے یعنی جن وعدوں کو پورا کرنے کا اللہ جل جلالہ نے حکم دیا ہے ان کو پورا کرو یعنی ایسے وعدے یا قسمیں جو خلاف شریعت بات پر کئے جائیں نہ صرف پورے نہ کئے جائیں گے بلکہ ان سے توبہ کرنا ضروری ہوگا اور قسموں کو پورا کرنے کا پورا اہتمام کرو کہ جس بات پر تم نے اللہ جل جلالہ کی قسم کھا کر اسے پختہ کردیا تو اس پر تم اللہ جل جلالہ کو ضامن بنا چکے ، اور اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے لہذا ایسی قسموں کو جو جائز امور پر ہوں پوری محنت اور کوشش سے نبا ہو ، اور اس بدنصیب خاتون کی طرف مت بنو جو دن بھر سوت کاتنے کے بعد اسے توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دے کہ نہ وہ روئی باقی رہی نہ تاگا اور محنت الگ سے برباد ، وعدہ خلافی کرنے سے یا قسم توڑنے سے اعمال کا یہی حال ہوتا ہے اور نہ ہی قسموں کو بہانہ بازی کا ذریعہ بناؤ کہ ایک گروہ سے معاہدہ ہوگیا تو اب دوسرا گروہ طاقتور نظرآیا تو پہلے سے وعدہ خلافی کرکے دوسرے کی طرف بھاگ اٹھو کہ ایسی حالتوں سے تمہیں واسطہ پڑتا رہے گا اور یہی امتحان ہے کہ انسان اپنی خواہشات کے پیچھے بھاگتا ہے یا اللہ جل جلالہ کی اطاعت ہر حال کرتا ہے خواہ خواہشات قربان بھی کرنا پڑیں کہ ان تمام اعمال کی حقیقت اور نتائج روز قیامت تمہارے روبرو کردیئے جائینگے ۔ اگر اللہ جل جلالہ چاہتے تو سب کو ایک ہی فرقہ بنا دیتے اور سب لوگوں کو ایک سا طرز فکر عطا کرتے مگر اس نے اس کا مدار انسانی عمل پہ رکھا کہ جس سے خفا ہو اسے ہدایت سے محروم کردیتا ہے اور وہ گمراہ ہوجاتا ہے اور جسے چاہے یعنی جس پر راضی ہو اسے ہدایت نصیب فرماتا ہے اور انسانی اعمال ہی تو سب نتائج کا سبب بنتے ہیں لہذا جو کچھ بھی کرتے ہو اس کے بارے تم سے پرسش ہوگی ،۔ (عہد شکنی نہ صرف بہت بڑا جرم ہے اس میں ایمان ضائع ہونے تک کا خطرہ ہے) اور اپنے وعدوں اور قسموں کو دھوکا دینے کا سبب نہ بناؤ کہ عہد کرکے توڑ دو یا قسم اٹھا کر دھوکا دو تو یہ صورت حال دوسروں کے لیے بھی گمراہی کا باعث بنے گی اور ان کے قدم بھی پھسلنے لگیں گے ، یوں بدعہدی ایک بہت بڑے فساد کا باعث بن کر اللہ جل جلالہ کی راہ سے روکنے کا موجب ہوگی جس کی پاداش میں بہت بڑا عذاب مرتب ہوگا کہ ایسے اعمال جو نہ صرف خود گناہ ہوں بلکہ دوسروں کی گمراہی کا سبب بن جائیں وہ بہت بڑے عذاب کا باعث بنتے ہیں اور کسی کے کردار کو دیکھ کر اگر لوگ گمراہ ہونے جائیں وہ بہت بڑے عذاب کا باعث بنتے ہیں اور کسی کے کردار کو دیکھ کر اگر لوگ گمراہ ہونے لگیں تو ایسا شخص خود بھی ایمان ضائع کر بیٹھتا ہے کہ عذاب عظیم ایمان ہی کے ضائع ہونے کا نام ہے اس میں جاہل اور محض نام کے صوفیوں کے لیے بھی بہت بڑی تنبیہ ہے جہاں عام مسلمان کی بدعہدی یا برا عمل دوسروں کو اسلام سے بدظن کرتا ہے وہاں نام نہاد صوفیوں کا کردار خود مسلمانوں کو بھی گمراہ کرتا ہے اور یہی جرم خود اس کے ایمان کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے ، (العیاذ باللہ) (رشوت بھی نہ صرف بدعہدی ہے بلکہ عہد فروشی ہے اور وہ بھی اتنی ہی سخت سزا کی موجب بنتی ہے) اور اللہ جل جلالہ کو یعنی اپنی ذمہ داریوں کو چند سکوں کے عوض مت بیچو علماء تفسیر کے مطابق جس کام کا پورا کرنا کسی کے ذمہ ہو وہ اللہ کا عہد ہے اس پر اپنی طے شدہ اجرت یا تنخواہ سے زائد کسی سے حاصل کرنا یا کچھ لیے بغیر کام نہ کرنا یہ ہی اللہ جل جلالہ کا عہد توڑنا اور اسے فروخت کرنا ہے کم قیمت سے مراد دنیا کا فائدہ ہے ، کہ کتنا بڑا بھی تب بھی اللہ جل جلالہ کے عہد کی عظمت کے سامنے فانی دنیا کی حیثیت بہت کم ہی ہے ، لہذا رشوت کی لعنت نہ صرف یہ کہ مومن کو زیب نہیں دیتی ، بلکہ حق یہ ہے کہ ایسے لوگوں کا ایمان سلب ہوجانے کا خطرہ ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ ایسے چیز یا عہدہ یا فائدہ کچھ دے دلا کر حاصل کرنا جو اس کا حق نہ بنتا ہو یعنی رشوت دینا بھی اتنا ہی جرم ہے کہ حدیث شریف کا مفہوم ہے رشوت دینے اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں ۔ ہاں جو کسی کا حق بنتا ہو مگر دینے والا بغیر رشوت کے نہ دے تو یہ نہ صرف رشوت ہے بلکہ ڈاکہ ہے اور لینے والا ڈاکو ہے اور اس صورت میں دینے والا مظلوم ہے یاد رکھو جو بھی تمہارے پاس ہے سب فانی ہے ، مال و دولت ہو یا دوستی ودشمنی ‘ جاہ و جلال ہو یا شان و شوکت سب کچھ ہی فنا ہونے والا ہے مگر اس کے اثرات اور نتائج یعنی وہ شئے جو اللہ جل جلالہ کے پاس ہے باقی رہنے والے ہیں ، اب محض فانی اعمال کی طلب میں عمر ضائع کرنا اور باقی رہنے والے نتائج کی فکر نہ کرنا تو دنشمندی نہ ہوگی ۔ (صبر) اور جن لوگوں نے صبر کیا ہوگا یعنی خواہشات کے مقابلے میں اللہ جل جلالہ کی اطاعت اختیار کی ہوگی کہ صبر کی تعریف خود کو اللہ جل جلالہ کو نافرمانی سے روکنا ہے ، انہیں ان کے اس عمل کا بدلہ بہترین اور کئی گنا زیادہ عطا کیا جائے گا ، کیا یہ حقیقت بھی اس بات ہی کی دلیل نہیں کہ مرد ہو یا عورت جسے بھی ایمان نصیب ہو اور اس کے اعمال نیک ہوں تو اسے حیات طیبہ یعنی بہترین پرسکون زندگی نصیب ہوتی ہے پرسکون زندگی سے یہ مراد نہیں کہ اسے کوئی بیماری یا غربت و افلاس یا دنیا کی مصیبت پیش نہیں آتی بلکہ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ صحت و دولت و فراغت سکون کا سبب ہے کہ سکون دل کی حالت کا نام ہے جس کے حاصل کرنے کے لیے سخت محنت کی جاتی ہے ، عہدہ ، حکومت ، مال و دولت اور گھر بار ، دوست احباب سب اسی غرض سے اختیار کیے جاتے ہیں ، مگر کتنے امیر پرسکون ہیں یا کتنے بااثر افراد سکون سے جی رہے ہیں ، ذرا یورپ ومغرب کے کافر معاشرہ کو دیکھیں جہاں دولت کی فراوانی ہے ، خوبصورت گھر ، اچھی غذا اور بہترین وسائل ہیں وہاں سکون نام کو نہیں اور خود کشی ، طلاق اور آپس میں لاتعلقی کی کوئی حد نہیں کہ دلوں میں سکون نہیں ہے لیکن جہاں نور ایمان ہو اور اتباع سنت نصیب ہو فاقہ کشی یابیماری تو کیا موت تک میں سکون نصیب رہتا ہے کہ یہی اللہ جل جلالہ کا قانون ہے ، اور جب دنیا میں یہ صورت حال ظاہر ہے تو آخرت کا اجر انہیں عمل کے اعتبار سے بہت بڑھ چڑھ کر نصیب ہوگا ، عمل صالح اور اطاعت الہی میں سب سے بڑی رکاوٹ شیطان ہی پیدا کرتا ہے جو مختلف وساوس پیدا کرتا ہے اور شیطانوں کی ایک قسم انسانوں میں سے ہے جو ابلیس کا اثر قبول کرکے نیکی میں مانع ہوتے ہیں تو جہاں ان سے جہاد کا حکم ہے کہ ان کا دفعیہ ہو سکے وہاں ابلیس اور اس کی اولاد سے اللہ جل جلالہ کی پناہ مانگنا ضروری ہے ، لہذا جب بھی کوئی کام کرنے لگیں وہ کتنا اچھا بھی ہو خواہ تلاوت کلام اللہ ہی کرنے لگیں تو اے حبیب ﷺ شیطان سے اللہ جل جلالہ کی پناہ طلب کریں ، گویا آپ ﷺ کی وساطت سے ساری انسانیت کو خطاب فرمایا گیا ہے ۔ (تعوذ پڑھنا سنت ہے) لہذا تلاوت قرآن سے پہلے ” اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم “۔ پڑھنا سنت ہے ، اسے جمہور علماء نے فرض نہیں لکھا کہ بعض مواقع پر نہ پڑھنا بھی ثابت ہے ، اس موقع پر بحث تفسیر ابن کثیر میں موجود ہے تلاوت قرآن نماز میں ہو تو بھی تعوذ پڑھا جائے گا ، اور حنفیوں کے نزدیک صرف پہلی رکعت میں کافی ہے ایسے ہی ہر کام سے پہلے شیطان سے اللہ جل جلالہ کی پناہ مانگنا چاہئے جس کے لیے حدیث شریف میں مختلف دعائیں موجود ہیں کہ اللہ جل جلالہ پر بھروسہ کرنے والوں پر اور مضبوط ایمان رکھنے والے لوگوں پر شیطان کا بس نہیں چلتا ، اس کا زور بھی انہی پر چلتا ہے جو اسی کی دوستی کا دم بھرتے ہیں اور اللہ جل جلالہ کی نافرمانی کرکے اللہ جل جلالہ کی حفاظت سے محروم ہوجاتے ہیں یا عقیدہ کے اعتبار سے شرک میں مبتلا ہو کر اللہ جل جلالہ کی تائید کھو دیتے ہیں ، لہذا گناہ کی بہت بڑی سزا یہ ہے کہ دنیا کی زندگی میں ہی انسان گمراہی کا شکار ہو کر آخرت کی تباہی کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے ۔
Top