Baseerat-e-Quran - An-Nahl : 90
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِ١ۚ یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَاْمُرُ : حکم دیتا ہے بِالْعَدْلِ : عدل کا وَالْاِحْسَانِ : اور احسان وَاِيْتَآئِ : اور دینا ذِي الْقُرْبٰى : رشتہ دار وَيَنْهٰى : اور منع کرتا ہے عَنِ : سے الْفَحْشَآءِ : بےحیائی وَالْمُنْكَرِ : اور ناشائستہ وَالْبَغْيِ : اور سرکشی يَعِظُكُمْ : تمہیں نصیحت کرتا ہے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَذَكَّرُوْنَ : دھیان کرو
بیشک اللہ تمہیں عدل و احسان اور رشتہ داروں کو ان کے حقوق دینے کا حکم دیتا ہے۔ بےحیائی ناشائستہ کاموں اور سرکشی اور بغاوت سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں سجھاتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو
لغات القرآن آیت نمبر 90 تا 92 یا مر وہ حکم دیتا ہے۔ العدل انصاف۔ الاحسان نیکی کرنا۔ ایتاء دینا۔ ذی القربی رشتہ دار۔ ینھی وہ روکتا ہے۔ الفحشاء (فحش) بےحیائی۔ المنکر ناشائستہ کام۔ البغی سرکشی۔ یعظ وہ نصیحت کرتا ہے۔ افو وا پورا کرو۔ عھدتم تم نے وعدہ کیا، عہد کیا۔ لاتنقضوا تم نہ تو ڈرو۔ الایمان قسمیں۔ تو کیں۔ پکا کرنا۔ کفیل ذمہ دار۔ نقضت جس نے توڑا۔ غزل کا تا ہوا سوت۔ انکات ٹکڑے ٹکڑے۔ دخلابینکم آس میں مداخلت کا بہانہ کرنا۔ امۃ ایک جماعت۔ اربی زیادہ بڑھا ہوا۔ یبلو وہ آزماتا ہے۔ تشریح : آیت نمبر 90 تا 92 گزشتہ آیات میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ نے اپنے رسول حضرت مصطفیٰ ﷺ پر جس قرآن کریم کو نازل فرمایا ہے وہ ہدایت ، رحمت اور بشارت و خوش خبری ہے۔ اسی طرح یہ بھی فرمایا گیا کہ قرآن کریم اپنے معنی اور مفہوم کے لحاظ سے بہت واضح اور صاف صاف احکامات پر مشتمل ہے۔ اب فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ اپنے ان بندوں کو جنہوں نے اللہ و رسول کی اطاعت کرلی ہے اور وہ اس کے پابند ہیں حکم دیتا ہے کہ زندگی کے ہر معاملے میں عدل و انصاف، احسان و کرم اور صلہ رحمی کا پوری طرح خیال رکھیں اور ہر بےحیائی اور ہر گناہ کی بات سے بچتے ہوئے ہر طرح کی بےاعتدالی اور ظلم کی راہ سے دور رہیں جب وہ اپنے کسی عہد اور معاہدہ پر اللہ کو ضامن اور گواہ بنا لیں تو نتائج سے بےپرواہ ہو کر سچائی کا پیکر بن جائیں اور ان معاہدات کی پابندی کریں جو انہوں نے اللہ سے یا اللہ کے بندوں سے کئے ہیں۔ فرمایا کہ اپنی قسموں اور معاہدوں کو فساد ڈالنے یا ایک دوسرے پر غالب آنے کا ذریعہ نہ بنائیں اور یہ اس عورت کی طرح نہ ہوجائیں جو دن بھر سوت کاتنے میں محنت کرتی رہی اور شام کو اس نے اپنی محنت کو اپنے ہاتھوں سے برباد کر ڈالا ہو۔ ان تین آیات میں شریعت اسلامیہ کی وہ مضبوط بنیادیں سامنے آتی ہیں جن پر انسانی معاشرہ قائم کرلیا جائے تو دنیا کی ہزاروں خرابیاں دور ہو سکتی ہیں بلکہ انسانوں کو جینے کا سچا راستہ مل سکتا ہے۔ ان آیات کی اہمیت کا اس بات سے اندازہ لگیا ا جاسکتا ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے زمانہ سے جمعہ اور عیدین کے خطبے میں اس آیت کو پڑھنا امت کا متفقہ فیصلہ رہا ہے تاکہ حق و صداقت کی اس آواز سے دنیا کے تمام مسلمانوں کے کان آشنا ہوجائیں۔ ان آیات میں سات باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ جن کی تفصیل یہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ عدل، احسان اور صلہ رحمی کا راستہ اختیار کیا جائے اور بےحیائی ، گناہوں کی ہر بات اور زیادتی و سرکشی سے بچتے ہوئے انسانی حقوق پر دست درازی نہ کی جائے۔ عہد و معاہدوں کی پابندی، اپنے اعمال کی حفاظت اور نامعقول روئیے سے باز رہا جائے۔ عدل : بنیادی عقیدوں، عبادتوں، اخلاق و معاملات، جذبات و احساسات اور امن و جنگ ہر حالت میں اعتدال، تو ازن اور انصاف کا خیال رکھا جائے۔ یہی چیز انسان کو خیر و برکت اور فتح و نصرت سے ہمکنار کرنے والی ہے۔ زندی کے ہر معاملہ میں اعتدال کی بہترین مثال اور نمونہ زندگی نبی کریم ﷺ کی زندگی ہے۔ آپ نے اپنی سیرت و کردار کی بلندی سے زندگی کے ہر شعبہ کی نہ صرف تکمیل فرمائی ہے بلکہ تمام معاملات میں اعتدال ، عدل و انصاف اور تو ازن کی بہترین ترجمانی فرمائی ہے۔ آپ راتوں کو اللہ کی عبادت و بندگی کے لئے اگر مصلے پر بیٹھے ہیں تو دن میں آپ ایک عظیم مجاہد کی طرح گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہو کر میدان جہاد میں بھی رہنمائی فرما رہے ہیں۔ اگر آپ اپنی گھریلو زندگی کو پرسکون بنانے کے لئے اپنے گھر والوں کے ساتھ بہترین حسن سلوک کا معاملہ فرما رہے ہیں تو دوسری طرف اہل ایمان کے ہر گھر میں محبت اور باہمی ہمدردی اور بہترین سلوک کی شمع روشن رکھنے کے لئے تاکید فرما رہے ہیں۔ اگر صحابہ کرام جذبہ جہاد سے سرشار ہو کر اپنے پیٹ پر ایک پتھر باندھے ہوئے ہیں تو نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ تم نے اپنے پیٹ پر ایک پتھر باندھا ہوا ہے تو میں نے دو پتھر باندھے ہوئے ہیں۔ صحابہ کرام خندق کی کھدائی فرما رہے ہیں تو آپ بھ یکسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ مسجد نبوی کی تعمیر ہو رہی ہے تو آپ صحابہ کرام کیس اتھ مل کر مٹی، گار اور پتھر ڈھو رہے ہیں۔ غرضیکہ گھریلو زندگی آپ ہر جگہ اعتدال و تو ازن کو قائم کئے ہوئے ہیں۔ اسی طرح آپ عدل و انصاف میں بھی ساری دنیا کے انسانوں کو یکساں سمجھتے ہیں اور فیصلے فرماتے ہیں۔ یہی وہ اسوہ حسنہ ہے جو ساری دنیا کے انسانوں کے لئے مشعل راہ اور نور ہدایت ہے۔ الاحسان : احسان کے معنی نیکی بھلائی اور اخلاق کریمانہ کے آتے ہیں۔ حکم ہے کہ انسان بہترین اخلاق، کردار اور نیکیوں کا ایسا پیکر بن جائے جس میں اپنی ذات کے علاوہ ہر آن دوسروں کی بھلائی اور بہتری کے لئے سوچتا رہے۔ تاکہ نیک نامی، عزت اور سر بلندی اس کا مقصدر بن جائے۔ دوسروں کیلئے ہمدردانہ رویہ، روا داری، برداشت، خوش خلقی ، دوسروں کو معاف کردینے کا جذبہ اور ایک دوسرے کے جذبات و احساسات کا لحاظ کرنے والا بنا جائے۔ اخلاق کریمانہ یہ ہے کہ انیان دوسروں کو ان کے حق سے بھی زیادہ دینے والا بن جائے اور اس کے صلے میں کسی سے کوئی توقع نہ رکھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ” تم اس سے ملو جو تم سے ملنا نہیں چاہتا اور جو شخص قطع تعلق کرنا چاہتا ہے اور تم اس شخص کو معاف کر دو جو تم پر ظلم اور زیادتی کرنے والا ہے تو یہ بہت بڑی نیکی ہے اس حدیث میں ان ہی اخلاق کریمانہ کو اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہے جو اعلیٰ ترین نیکی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے احسان کو ایک بڑی نعمت بھی قرار دیا ہے۔ سورة رحمٰن میں ارشاد ہے کہ نیکی اور بھلائی کا بدلہ نیکی اور بھلائی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ایتاء ذی القربیٰ : یعنی رشتہ داروں کے ساتھ بہترین سلوک کرنا جس کو صلہ رحمی کہتے ہیں۔ صلہ رحمی خود اپنی جگہ ایک بہت بڑی نیکی ہے جس کے لئے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر حکم دیا گیا ہے اور احادیث میں نبی کریم ﷺ نے صلہ رحمی کرنے کو ایسی نیکی قرار دیا ہے جس سے خیر و برکت اور اللہ کی رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں جس سے باہمی انسیت و محبت، ہمدردی اور مروت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں قرابت داروں کے جو حقوق رکھ دیئے ہیں ان کا ہر حال میں لحاظ رکھنا شرف انسانیت ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ایک مومن کی شان یہ ہے کہ وہ عدل و احسان اور رشتے ناتوں کا پاس ولحاظ کر کے اپنے لئے جنت کی ابدی راحتیں اور سعادتیں حاصل کرل ینا ہے۔ ان تین اعلیٰ ترین اخلاقی صفات کے بعد تین ایسی برائیوں کے متعلق ارشاد فرمایا جا رہا ہے جو انسانی اخلاق، معاشرہ ، فرد اور قوم کو تباہ کر کے رکھ دیتی ہیں۔ بےحیائی ، ہر برائی کا کام اور اپنی حدوں سے آگے بڑھنا ان تین باتوں سے منع کیا گیا ہے جس کی تفصیل یہ ہے۔ فحشاء : فحش کی جمع ہے یعنی تمام شرمناک مکروہ اور بےہودہ کام جن سے ہر مومن کو بچنا چاہئے۔ کیونکہ اس کا نتیجہ دنیا اور آخرت کی خرابی اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں ہے، زنا، بدکاری، شراب نوشی، عریانیت، گانا بجانا، بدکلامی، بد زبانی اور کھلم کھلا بےحیائی کا ہر وہ کام جس سے جھوٹ فریب، تہمت اور دوسروں پر ناحق الزام تراشی پھیلنے کا اندیشہ ہو۔ اسی طرح بدکاریوں پر ابھارنے والے وہ تمام کام جو آج فیشن کے طور پر رائج ہوچکے ہیں۔ افسانے، ڈرامے، فل میں وغیرہ، یہ سب بھی شریعت کی نظر میں فحش اور برے کام ہیں۔ ان تمام کاموں سے بچنا ضروری ہے۔ منکر : اس سے مراد ہر وہ برائی اور کام ہے جس کو ساری دنیا برا سمجھتی ہے اور ہمیشہ سے ہر قوم نے اس سے بچنے کی تاکید بھی کی ہے مثلاً جھوٹ ، دھوکہ ، فریب بداخلاقی بد لحاظی وغیرہ۔ اس سے دنیا کا وہ کونسا مذہب ہے جو اس کو برا نہیں کہتا۔ لیکن اس آیت میں فحش اور منکر کو ایک ساتھ بیان کرنے سے یہ بھی سمجھانا ہے کہ دنیا بھر کے لوگ منکر کو تو برا سمجھتے ہیں لیکن بےحیائیوں کے کاموں کو برا نہیں سمجھتے۔ شریعت اسلامیہ نے فرمایا ہے کہ صرف برائی کو برا نہ سمجھا جائے بلکہ ہر برائی کے ساتھ ہر بےحیائی اور بےغیرتی کے کاموں کو بھی برا سمجھنا ضروری ہے۔ یہ دونوں ایسی برائیاں ہیں جن سے صرف نماز روک سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ” ان الصلوۃ تنھی عن الفحشاء و المنکر “ یعنی نماز بےحیائی اور منکرات سے روکتی ہے۔ اگر ایک نماز پڑھنے والا نماز بھی پڑھتا ہے اور بےحیائی اور منکرات کے کام بھی کرتا ہے تو اس کو اپنی عبادت کا جائزہ لینا چاہئے کیونکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ بےحیائی اور منکرات نماز کے ساتھ جمع ہوجائیں۔ ایسا شخص یقینا نماز کی روح تک نہیں پہنچا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی نمازوں کو صحیح کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں ہر طرح کے فحش اور منکرات سے محفوظ فرمائے ۔ آمین البغی : اللہ نے جو حدیں مقرر کی ہیں ان سے باہر نکلنا، سرکشی کرنا اور دورسوں کے حقوق مارنے کی کوشش کرن کو ” بغی “ کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ انسان پر بندوں کے حقوق ہوں یا اللہ کے ان کو پورے طور پر ادا نہ کرنا گناہ ہے۔ ان ہی میں سے بہ بڑے گناہ کی بات یہ ہے کہ کوئی شخص دوسروں کے حقوق مارنے اور دست درازی کرنے میں کوئی رکاوٹ محسوس نہ کرے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ عدل و احسان اور صلہ رحمی کا خیال کریں اور بےحیائی، برائی اور حد سے گذر جانے والی باتوں سے پرہیز کریں۔ ایفائے عہد : وعدوں اور معاہدوں کو پورا کرنا ” ایفائے عہد “ کہلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کے عہد اور معاہدوں کو پورا کرنے پر زور دیا ہے اور ہر مومن کی یہ ذمہ داری قرار دی گئی ہے کہ اس نے (1) اللہ تعالیٰ سے جو بھی عہد اور عدہ کیا ہو۔ (2) ایک انسان نے دوسرے انسان سے وعدہ اور عہد کیا ہے۔ ہر ایک عہد و معاہدے کو پورا کرنا ضروری ہے اگر ان معاہدوں پر قسم کھا کر اللہ کو گواہ بنا لیا ہو تب تو اس پر دوہری ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے ایک تو وعدہ کو پورا کرنے کی اور ایک اس قسم کی جس میں اللہ کو گواہ اور ضامن بنا لیا گیا ہو۔ دنیاوی اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو وہی شخص اور افراد قوم عزت و احترام کا مقام حاصل کرتے ہیں جن کی زبان پر دوسروں کو اعتماد اور بھروسہ ہو۔ جس کی زبان ، عہد اور معاہدے کا اعتبار نہ ہو اس کی کوئی عزت نہیں کی جاتی۔ عربوں میں علاوہ اور بہت سی خرابیوں کے ایک بڑی خرابی اپنے وعدوں، معاہدوں اور قسموں سے پھرجانے کی عادت تھی مثلاً ایک شخص سے معاہدہ کرلیا۔ وہ شخص مطمئن ہوگیا۔ ادھر اس نے اطمینان کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسرے سے اسی قسم کا وعدہ کرلیا۔ اس طرح چند پیسوں کی خاطر وہ اپنے عہد ومعاہدہ کو قربان کردیتے تھے اور مکاری، فریب اور دغا بازی کرنے کو اپنی ہوشیاری سمجھتے تھے اللہ تعالیٰ نے عہد و معاہدوں کی پابندی کا بھی حکم دیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ہر اس طریقے کو آخرت کی ناکامی اور روسائی قرار دیا ہے جس میں دوسرے شخص کو کسی طرح کا بھی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو اس کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح ارشاد فرمایا ہے کہ اے مومنو ! جب تم کسی سے عہد و معاہدہ کرلو تو اس کو پورا کرو اور اپنی ان قسموں کو جن پر تم نے اللہ کو گواہ بنا اپنی ہو ان کو ہرگز نہ توڑو۔ فرمایا کہ اپنے دلی فریب اور معاہدے کی خلاف ورزی کو تم ساری دنیا سے چھپا سکتے ہو لیکن اس اللہ سے نہیں چھپا سکتے جس کو تمہاری ایک ایک بات کا علم ہے فرمایا کہ تم اس عورت کی طرح مت ہوجانا جو دن بھر سوت کات کر شام کو اپنے ہاتھوں سے برباد کر ڈالتی تھی۔ فرمایا کہ تم اپنی قسموں اور معاہدوں کو باہمی فساد ڈالنے کا بہانہ اور ایک دوسرے پر غالب آنے کا ذریعہ نہ بناؤ۔ یہ اللہ کی طرف سے ایک بڑی آزمائش ہے۔ دنیا میں انسان وقتی طور پر بد عہدی کو چھپا سکتا ہے لیکن آخرت میں اللہ تعالیٰ ایک ایک بات کو کھول کر رکھ دے گا، فریب کار، بد کار اور معاہدوں کو توڑنے والے اللہ کے سامنے قیامت کے دن ذلیل و رسوا ہو کر رہ جائیں گے۔
Top