Tafseer-al-Kitaab - An-Nahl : 90
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِ١ۚ یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَاْمُرُ : حکم دیتا ہے بِالْعَدْلِ : عدل کا وَالْاِحْسَانِ : اور احسان وَاِيْتَآئِ : اور دینا ذِي الْقُرْبٰى : رشتہ دار وَيَنْهٰى : اور منع کرتا ہے عَنِ : سے الْفَحْشَآءِ : بےحیائی وَالْمُنْكَرِ : اور ناشائستہ وَالْبَغْيِ : اور سرکشی يَعِظُكُمْ : تمہیں نصیحت کرتا ہے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَذَكَّرُوْنَ : دھیان کرو
(مسلمانو، ) اللہ حکم دیتا ہے عدل اور احسان اور رشتہ داروں کو (ان کے حقوق) دینے کا، اور منع فرماتا ہے بےحیائی (کے کاموں، ) بری باتوں اور ظلم و زیادتی سے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ تم (ان باتوں کا) خیال رکھو۔
[58] اس سے پہلے کی آیت میں ارشاد ہوا تھا کہ ہم نے تم پر یہ کتاب نازل کی ہے دین کی تمام باتیں بیان کرنے والی۔ یہ آیت اس کا ایک نمونہ ہے۔ ابن مسعود فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک خیر و شر کو اس آیت میں اکٹھا کردیا ہے۔ تین بھلائیوں کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے جن پر پورے انسانی معاشرے کی درستی کا انحصار ہے۔ پہلی چیز عدل ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے تمام عقائد، اعمال، اخلاق، معاملات و جذبات اعتدال و انصاف کی ترازو میں تلے ہوں۔ افراط و تفریظ سے کوئی پلہ جھکنے یا اٹھنے نہ پائے۔ سخت سے سخت دشمن کے ساتھ بھی معاملہ کرے تو انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔ اس کا ظاہر و باطن یکساں ہو۔ جو بات اپنے لئے پسند نہ کرتا ہو اپنے بھائی کے لئے بھی پسند نہ کرے۔ دوسری بھلائی احسان ہے۔ جس سے مراد ہے نیک برتاؤ، فیاضانہ معاملہ، رواداری، خوش خلقی، درگزر اور دوسرے کو اس کے حق سے کچھ زیادہ دینا اور خود اپنے حق سے کچھ کم پر راضی ہوجانا۔ یہ عدل سے زائد ایک چیز ہے جس کی اہمیت اجتماعی زندگی میں عدل سے بھی زیادہ ہے۔ عدل اگر معاشرے کی اساس ہے تو احسان اس کا جمال اور اس کا کمال ہے۔ تیسری بھلائی جس کا اس آیت میں حکم دیا گیا ہے صلہ رحمی ہے جس کا مطلب صرف یہی نہیں کہ آدمی اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے بلکہ اس کے یہ معنی بھی ہیں کہ ہر صاحب استطاعت شخص اپنے مال پر نہ صرف اپنی ذات اور اپنے بال بچوں ہی کا حق نہ سمجھے بلکہ اپنے رشتہ داروں کے حقوق بھی تسلیم کرے۔ شریعت ہر خاندان کے خوش حال افراد کو اس امر کا ذمہ دار قرار دیتی ہے کہ وہ اپنے خاندان کے لوگوں کو بھوکا ننگا نہ چھوڑیں۔ وہ یہ اصول پیش کرتی ہے کہ ہر خاندان کے غریب افراد کا پہلا حق اپنے خاندان کے خوشحال افراد پر ہے۔ پھر دوسروں پر ان کے حقوق عائد ہوتے ہیں۔ اوپر کی تین بھلائیوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ تین برائیوں سے روکتا ہے جو انفرادی حیثیت سے افراد کو اور اجتماعی حیثیت سے معاشرے کو خراب کرنے والی ہیں۔ پہلی برائی '' فحشاء '' ہے جس کا اطلاق تمام بےہودہ اور شرمناک افعال پر ہوتا ہے۔ مثلاً زنا، برہنگی اور عریانی، عمل قوم لوط، محرمات سے نکاح، چوری، شراب نوشی، گالیاں بکنا اور بدکلامی کرنا۔ نیز علی الاعلان برے کام کرنا اور برائیوں کو پھیلانا، بدکاریوں پر ابھارنے والے افسانے، ڈرامے اور فلمیں، عریاں تصاویر کی نمائش، عورتوں کا بن سنور کر منظر عام پر آنا، سٹیج پر عورتوں کا ناچنا اور تھرکنا، یہ سب فحشیات میں داخل ہیں۔ دوسری برائی '' منکر '' ہے۔ اس سے مراد ہر وہ برائی ہے جسے انسان بالعموم برا جانتے ہیں اور تمام شریعتوں نے جس سے منع کیا ہے۔ تیسری برائی '' بغی '' ہے۔ جس کے معنی ہیں۔ اپنی حد سے تجاوز کرنا اور دوسرے کے حقوق پر دست درازی کرنا چاہے وہ حقوق خالق کے ہوں یا مخلوق کے۔
Top