Maarif-ul-Quran - An-Nahl : 90
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِ١ۚ یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَاْمُرُ : حکم دیتا ہے بِالْعَدْلِ : عدل کا وَالْاِحْسَانِ : اور احسان وَاِيْتَآئِ : اور دینا ذِي الْقُرْبٰى : رشتہ دار وَيَنْهٰى : اور منع کرتا ہے عَنِ : سے الْفَحْشَآءِ : بےحیائی وَالْمُنْكَرِ : اور ناشائستہ وَالْبَغْيِ : اور سرکشی يَعِظُكُمْ : تمہیں نصیحت کرتا ہے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَذَكَّرُوْنَ : دھیان کرو
خدا تم کو انصاف اور احسان کرنے اور رشتہ داروں کو (خرچ سے مدد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بےحیائی اور نامعقول کاموں اور سرکشی سے منع کرتا ہے (اور) تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو۔
تلقین مکارم اخلاق محاسن اعمال و آداب قال اللہ تعالیٰ : ان اللہ یامر بالعدل والاحسان .... الیٰ .... والذین ہم بہ مشرکون۔ (ربط) گزشتہ آیت میں یہ بتلایا تھا کہ یہ قرآن پر شے کا بیان ہے اور وہ ایک جامع کتاب ہے اور ہدایت اور رحمت ہے اور اہل ایمان کے لیے بشارت ہے اب ان آیات میں بتلاتے ہیں کہ یہ قرآن جو اللہ نے آپ ﷺ پر نازل کیا ہے وہ تمام مکارم اخلاق اور محاسن آداب اور اعمال خیر کا حکم دیتا ہے اور تمام برائیوں اور بد اخلاقیوں اور بد اعمالیوں سے منع کرتا ہے اور قوت غضبیہ اور قوت شہویہ کی اصلاح کرتا ہے کہ نہ کوئی فحش بات زبان سے نکالو اور نہ کسی پر ظلم کرو اور نہ قسم کھا کر توڑو اور نہ خدا سے بدعہدی کرو اور ہر وقت یہ خیال رکھو کہ یہ دنیا دار فانی ہے اور قیامت آنے والی ہے۔ جس دن ذرہ ذرہ کا حساب دینا ہوگا ایسی کتاب کے کتاب ہدایت اور کتاب رحمت اور کتاب بشارت ہونے میں کیا شبہ ہوسکتا ہے اور ایسی کتاب کہ جامعیت اور کاملیت میں کیا تردد ہوسکتا ہے گویا کہ گزشتہ آیت (تبیانا لکل شیء الخ) کی دلیل اور برہان ہے اور چونکہ یہ آیت اجمالا تمام عقائد حقہ اور مکارم اخلاق اور محاسن اعمال کے حکم پر اور تمام فواحش اور منکرات اور اعمال بد کی ممانعت پر مشتمل ہے تو عجب نہیں کہ شاید اسی جامعیت کے لحاظ سے خلیفہ راشد عمر بن عبد العزیز ؓ نے خطبہ جمعہ کے اخیر میں اس کو درج کرنے کا حکم دیا کہ اس میں تمام اچھی باتوں کا حکم اور تمام بری باتوں سے ممانعت کا حکم اجمالا مذکور ہے لہٰذا ایسی کتاب مستطاب پر دوڑ کر ایمان لانا چاہئے۔ بعد ازاں یہ بتلایا کہ ہدایت اور ضلالت سب اس کے قبضہ قدرت میں ہیں جس کو چاہے ہدایت دے اور جس کو چاہے گمراہ کرے اور اخیر میں یہ بتلایا کہ شیطان کے پنجہ سے رہائی کا طریقہ یہ ہے کہ شیطان سے اللہ کی پناہ مانگو اور اللہ پر بھروسہ رکھو چناچہ فرماتے ہیں۔ تحقیق اللہ تعالیٰ اس کتاب مستطاب (قرآن) میں جو اس نے آپ ﷺ پر نازل کی ہے اور جس میں ہر شئے کا بیان ہو اور جو مسلمانوں کے لئے خاص طور پر ہدایت اور رحمت اور بشارت ہے خاص طور پر تم کو تین باتوں کا حکم دیتا ہے اول عدل اور انصاف کا یعنی بلاکم و بیش سب کے حقوق ادا کرو اور سب چیزوں میں خواہ وہ اعتماد سے متعلق ہوں اور اعتدال اور توسط اور میانہ روی کو ملحوظ رکھو ٹھیک افراط اور تفریط کے درمیان چلو۔ ترازو کا کوئی پلہ ادھر ادھر جھکنے نہ پائے اور نہ اٹھنے پائے ” عدل “ کے معنی لغت میں توسط کے ہیں یعنی دونوں جانبیں برابر رہیں نہ حد سے بڑھے اور نہ گھٹے اور آیت میں عدل سے اعتدال کے معنی مراد ہیں یعنی اعتقاد اوراقوال اور افعال سب میں درجہ اعتدال پر قائم رہو یعنی ہر ایک چیز کو اس کی حد پر رکھو اور اس سے تجاوز نہ کرو توحید عدل ہے اور شرک ظلم ہے عبادت خالق کا حق ہے نہ کہ مخلوق کا کسی کا حق ادا کرنا یہ عدل ہے اور کسی کا حق دوسرے کو دے دینا یہ ظلم ہے۔ اور دوم یہ کہ اللہ حکم دیتا ہے تم کو احسان اور بھلائی کا یعنی بذات خود لوگوں کے ساتھ نیکی اور بھلائی کرو مطلب یہ ہے کہ غیر کے مقدمہ میں عدل و انصاف یعنی برابری چاہے اور اپنی طرف سے احسان اور بھلائی چاہے۔ مقام احسان۔ مقام عدل سے ذرا بلند ہے۔ عدل فرض ہے اور احسان نفل ہے۔ کیونکہ ” احسان “ ایسے ثواب کو کہتے ہیں جو واجب نہ ہو جیسے صدقہ نافلہ۔ مقدار واجب پر کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے زیادتی کا نام احسان ہے اور عبادت میں احسان یہ ہے کہ اللہ کی بندگی اس طرح کرے۔ گویا کہ خدا دیکھ رہا ہے اس طرح کی عبادت اپنے ساتھ بھلائی اور نی کوئی ہے۔ اور معاملات میں احسان یہ ہے کہ اپنے حقوق اور انتقام سے درگزر کرے اور دوسرے کو اس کے استحقاق سے زیادہ نفع پہنچاوے۔ اور سوم یہ کہ اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے خویش و اقارب کو دینے کا یعنی صلہ رحمی کا کیونکہ اقارب کا حق اجانب سے زائد ہے۔ عدل و انصاف تو دوست دشمن سب کے لیے برابر اور یکساں ہے اور احسان اور مروت میں بسا اوقات خصوصیت اور رعایت بھی ملحوظ ہوتی ہے یہ صلہ رحمی اگرچہ عدل میں یا احسان میں داخل ہے۔ لیکن صلی رحمی اور حق قرابت کا لحاظ اور پاسداری ایک مستقل نیکی اور بھلائی ہے اور عظیم احسان ہے اس خصوصیت کے ساتھ وایتای ذی القربی کو علیحدہ ذکر فرمایا۔ کیونکہ قرآن اور حدیث صلہ رحمی سے بھرے پڑے ہیں۔ حدیث میں ہے کہ لفظ رحم بمعنی قرابت اللہ کے نام پاک رحمن سے مشتق ہے۔ جو رحم (قرابت) کو وصل کرے یعنی ملا دے اللہ اس کو ملادے اور جو رحم یعنی قرابت کو قطع کرے اللہ اس کو اپنی رحمت سے منقطع کرے یہی وجہ ہے کہ بعض صورتوں میں قریبی حاجت مند رشتہ دار کا نان و نفقہ واجب ہوجاتا ہے اور بعض صلہ رحمی مستحب ہے۔ جیسے رشتہ دار کو ہدیہ اور تحفہ دینا تاکہ باہمی محبت اور الفت قائم رہے۔ بہرحال صلہ رحمی احسان کا فرد اکمل ہے اس لیے خاص طور پر اس کو علیحدہ ذکر فرمایا۔ کیونکہ قرابت داروں کی روپیہ پیسہ سے مدد کرنا اور ان کے ساتھ احسان کرنا عظیم عبادت ہے جس میں یہ تین صفتیں عدل اور احسان اور صلہ رحمی جمع ہوگئیں اس کی قوت عقلیہ اور ملکیہ مکمل اور مہذب ہوگئی۔ خلاصہ کلام یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جو کتاب ہدایت اور شریعت نازل کی اس میں خاص طور پر تین حکم دئیے ایک عدل و انصاف کا۔ دوم احسان اور مروت کا۔ سوم صلہ رحمی کا۔ اب آگے ان چیزوں کو بیان کرتے ہیں جن کو خاص طور پر اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے وہ بھی تین چیزیں ہیں۔ چناچہ فرماتے ہیں اور اللہ تعالیٰ منع فرماتا ہے تین چیزوں سے :۔ (1) بےحیائی سے یعنی ان برے کاموں سے جو شہوانی اور نفسانی قوت کے اشارہ پر کیے جائیں جیسے زنا اور لواطت وغیرہ وغیرہ۔ (2) اور دوم منع فرماتا ہے اللہ تعالیٰ تم کو اس کام سے جو نامعقول اور ناپسندیدہ ہو جس کے کرنے والے کو لوگ برا کہیں۔ ” منکر “ کے معنی نامعقول اور ناپسندیدہ کے ہیں منکر سے وہ امور مراد ہیں جو شریعت کے نزدیک نامعقول اور ناپسندیدہ ہوں اور قوت غضبیہ اور سبعیہ کے اشارہ سے سرزد ہو رہے ہوں جیسے کسی کو قتل کردینا یا کسی کا مال غصب کرلینا۔ قوت غضبیہ اور سبعیہ ہی انسان کو ایذا رسانی پر آمادہ کرتی ہے اور یہ امر تمام عقلاء کے نزدیک ” منکر “ یعنی ناپسندیدہ ہے۔ (3) اور سوم یہ کہ اللہ تعالیٰ منع کرتا ہے تم کو ظلم اور تعدی سے یعنی اپنی حد سے تجاوز کرکے دوسروں پر غلبہ اور فوقیت کا خواہاں ہونا جسے تکبر اور تجبر کہتے ہیں۔ انسان میں جو قوت شیطانیہ اور قوت وہمیہ کا مادہ موجود ہے اس سے ظلم وتعدی اور سرکشی نمودار ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں تنبیہ فرما دی کہ ان تینوں قوتوں کو یعنی قوت شہویہ قوت غضبیہ اور قوت شیطانیہ کو قابو میں رکھو اور قوت عقلیہ کو ان پر حاکم بناؤ تو تمہاری دنیا اور دین سب درست ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان اوامرو نواہی کے ذریعے تم کو نصیحت کرتا ہے اسی میں تمہاری دنیا اور آخرت کی صلاح و فلاح ہے۔ اول کی تین باتیں ہر خیر کی اصل ہیں کسی عارف کا قول ہے کہ ملک اور سلطنت کی بقاء اور استقامت کا دارومدار انہی چھ چیزوں پر ہے عدل کا ثمرہ فتح و نصرت اور احسان کا نتیجہ حسن ثناء اور نیک نامی ہے اور صلہ رحمی کا فائدہ انس اور الفت ہے اور فحشاء کا نتیجہ دین اور دنیا کی تباہی اور بربادی ہے اور منکر (نامعقول اور ناپسندیدہ) امور کا ثمرہ دشمنوں کو مقابلہ کے لیے آمادہ کرنا ہے اور بغی (یعنی ظلم اور زیادتی) کا نتیجہ مقاصد سے محرومی ہے۔ نکتہ : اور اخیر کی تین چیزیں اول کی تین چیزوں کے مقابلہ میں ہیں۔ فحشاء عدل کے مقابلہ میں ہے اور منکر احسان کے مقابلہ میں ہے اور بغی ظلم اور زیادتی ایتای ذی القربیٰ کے مقابلہ میں ہے۔ عبد اللہ ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ خیرو شر کی سب سے زیادہ جامع آیت یہ ہے جو سورة نحل میں ہے۔ ان اللہ یامر بالعدل والاحسان۔ الخ اخرجہ البخاری فی الادب والبیھقی فی شعب الایمان والحاکم وصححہ (روح المعانی ص 200 جلد 14) اور ابن عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ قرآن کریم میں سب سے زیادہ اعظم اور بزرگ ترین جامع آیت ان اللہ یامر بالعدل والاحسان الخ اور دربارہ تفویض و تسلیم یعنی سب کاموں کو اللہ کو سونپ دینے اور اس پر بھروسہ کرنے کے بارے میں سب سے بڑھ کر یہ آیت ہے ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا ویرزقہ من حیث لا یحتسب الخ اور گنہگاروں کے لیے سب سے زیادہ امید دلانے والی یہ آیت قل یعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم لاتقطوا من رحمۃ اللہ۔ الخ عشمان بن مظعون ؓ اور اکثم بن صیفی ؓ وغیرہ اس آیت کو سن کر مشرف باسلام ہوئے کہ یہ آیت اعلیٰ ترین مکارم اخلاق کا حکم دیتی ہے اور تمام بےحیائیوں اور برائیوں سے منع کرتی ہے۔ امام سیوطی (رح) نے نقل کیا ہے کہ بعض بنو امیہ اپنے خطبوں کے اخیر میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا غیر مناسب الفاظ سے ذکر کرتے تھے۔ جب عمر بن عبد العزیز ؓ رجب سنہ 99 ہجری میں خلیفہ ہوئے تو انہوں نے اس کو ممنوع قرار دیا اور حکم دیا کہ خطبے کے اخیر میں یہ آیت پڑھی جائے ان اللہ یامر بالعدل والاحسان الخ۔ اور سب سے پہلے خود عمر بن عبد العزیز (رح) نے اس آیت کو خطبہ میں پڑھا۔ بحمدہ تعالیٰ آج بھی یہ سنت حسنہ جاری ہے۔ اور سب سے پہلے خطبہ میں ان اللہ وملئکۃ یصلون علی النبی الخ خلیفہ مہدی عباسی (رح) نے پڑھا۔ بحمدللہ آج تک اس سنت پر بھی عمل جاری ہے۔ (روح البیان ص 73 ج 5، روح المعانی ص 240 ج 14) ایفائے عہد کی تاکید اکید اور غدر اور بد عہدی سے ممانعت اور تہدید گزشتہ آیت میں اجمالی طور پر مکارم اخلاق اور محاسن اعمال کا ذکر تھا اب ان میں سے بعض اہم امور کا خاص طور پر ذکر کرتے ہیں یعنی عہد کی پابندی کی تاکید فرماتے ہیں جس پر تمام دینی امور اور دنیوی کاموں کا دار و مدار ہے۔ یا یوں کہو کہ گزشتہ آیت میں عدل و انصاف کا حکم تھا جس میں ایفاء عہد بھی داخل تھا اور غدر اور بدعہدی منکر اور بغی میں داخل تھی۔ اب آگے خاص طور پر ایفائے عہد کی تاکید اور غدر اور بد عہدی کی ممانعت کا ذکر فرماتے ہیں۔ کیونکہ اس زمانہ میں عام طور پر ان چیزوں کا اہتمام نہ تھا اور عہد و پیمان کی کوئی پرواہ نہ تھی جدھر قوت و کثرت دیکھی ادھر جھک گئے اور کمزور جماعت کے عہد و پیمان کو پس پشت ڈال دیا جیسا کہ آج کل مغربی اقوام کا شیوہ ہے۔ چناچہ فرماتے ہیں اور تم پورا کرو اللہ کے عہد کو جب عہد کرلو۔ سب سے پہلا عہد جو بندوں نے خدا کے ساتھ کیا وہ عہد الست ہے۔ اس کے علاوہ جس قدر عہد ہیں خواہ وہ حقوق اللہ سے متعلق ہوں یا حقوق العباد سے وہ سب اس حکم میں داخل ہیں اور ان کا ایفاء واجب اور لازم ہے اور مت توڑو قسموں کو پخترہ کرنے کے بعد اللہ کا نام لینے سے قسم پختہ ہوجاتی ہے۔ اور حالانکہ تم عہد کرتے وقت اور قسم کھاتے وقت اللہ کو اپنے اوپر ضامن بنا چکے ہو اس کے بعد اگر تم نے عہد شکنی کی اور قسم کو توڑا تو معلوم ہوا کہ تمہیں اللہ کی پرواہ نہیں تو خوب سمجھ لو کہ بلاشبہ اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو قیامت کے دن تمہارے ایفاء اور عہد شکنی کی جزا و سزا دے گا۔ اور عہد شکنی کرکے تم اس عورت کی مانند نہ بنو۔ جس نے اپنا سوت کاتنے کے بعد توڑ ڈالا اور بوٹی بوٹی کرکے اس نے نوچ ڈالا۔ قریش میں ایک عورت تھی جس کا نام ریطہ تھا وہ بڑی بیوقوف اور احمق تھی۔ صبح سے لے کر دوپہر تک خود بھی سوت کا تتی اور اپنی لڑکیوں سے بھی کتواتی۔ جب دوپہر ہوجاتی تو وہ عورت ان کو حکم دیتی کہ جس قدر سورت تم نے کاتا ہے سب توڑ ڈالو۔ ہمیشہ ہی اس کی عادت تھی۔ مفسرین کہتے ہیں کہ یہ محض تمثیل ہے کسی عورت کی طرف اشارہ نہیں اس سے فقط مثال دینا مقصود ہے کہ عہد کا توڑنا ایسا ہی ہے جیسے سوت کات کر اس کو توڑ ڈالنا۔ حق تعالیٰ نے عہد کے توڑنے کو تاگا توڑنے کے ساتھ تشبیہ دی ہے اور یہ نصیحت فرمائی ہے کہ جس طرح وہ احمق عورت اپنے تاگے کو توڑ دیتی تھی تم اس کی طرح اپنے عہد کو پختہ کرنے کے بعد نہ توڑ و کیا تم اپنی قسموں کو آپس میں دھوکہ اور فریب اور دخل کا ذریعہ اور بہانہ بنانا چاہتے ہو کہ تمہاری قسم سے مطمئن ہو کر دوسرا دھوکہ کھا جائے اور تمہارا یہ قسم توڑنا محض اس بنا پر ہے کہ ایک گروہ مال و دولت اور عددی کثرت میں دوسرے گروہ سے بڑھا ہوا ہے۔ عرب کے لوگ ایک قوم کے ساتھ عہد کرلیتے اور وہ قوم ان کی طرف سے اطمینان کرلیتی۔ پھر جب دوسری قوم کو ان سے مال و دولت اور قوت اور عددی کثرت میں زیادہ دیکھتے تو ان سے عہد کرلیتے اور کمزور قوم کا عہد توڑ دیتے اور حیلے اور بہانے بنا کر ان سے عذر کردیتے جیسے آج کل مغربی اقوام کا یہی شیوہ بنا ہوا ہے خدا تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا اور وفاء عہد کا حکم دیا۔ جزایں نیست کہ اللہ تعالیٰ تم کو اس حکم سے آزماتا ہے کہ دیکھیں عہد پورا کرتے ہیں یا جس کا پلہ قوت اور کثرت میں جھکا ہوا دیکھا ادھر جھک جاتے ہیں اور بیشک اللہ قیامت کے دن اس چیز کی حقیقت کو ظاہر کر دے گا۔ جس میں تم اختلاف کرتے تھے تم نے عہد توڑتے وقت یہ خیال کیا کہ جو جماعت زبردست اور کثیر التعداد ہے اس کے ساتھ ملنے میں عزت ہے سو خوب سمجھ لو کہ یہ عزت نہیں بلکہ ذلت ہے اور دنیا و آخرت میں نصیحت اور رسوائی کا ذریعہ ہے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نے تمہاری اس عہد شکنی کی حقیقت کو ظاہر کر دے گا۔ اور سب کے سامنے تم کو فضیحت کرے گا اور یہ دنیا دار ابتلاء اور دار امتحان ہے اس لیے اس نے تم کو دنیا میں مختلف بنایا ہے کہ تمہارا امتحان کرے اگر وہ چاہتا کہ تم کو ابتلاء اور آزمائش میں نہ ڈالے تو البتہ وہ کردیتا تم سب کو ایک گروہ کہ سب اسلام پر متفق ہوتے و لیکن اس کی حکمت اور مصلحت یہ ہے کہ باہم رہیں اور ایک دوسرے کے مخالف اور دشمن بنے رہیں وہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور ظالم بنا دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور دنیا میں اس کو مظلوم بنا دیتا ہے اسی وجہ سے دنیا میں بعض مومن اور اکثر کافر ہیں اور دونوں امتحان کے میدان میں ہیں۔ قال اللہ تعالیٰ ولا یزالون مختلفین الا من رحم ربک ولذلک خلقہم۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اس باہمی اختلاف اور باہمی عداوت کے لیے سب کو پیدا کیا مگر جن پر اللہ تعالیٰ کا رحم ہوا انہوں نے حق سے اختلاف نہیں کیا اور نہ اہل حق کے دشمن بنے۔ بہر حال اگر اللہ کی مشیت ہوتی تو سب کو ایک دین پر کردیتا لیکن اس کی مشیت اور حکمت یہ ہے کہ لوگ اس دار ابتلاء (دنیا) میں باہم مختلف رہیں کوئی ہادی اور مہتدی ہو اور کوئی ضال اور مضل ہو کوئی مظلوم ہو اور کسی کی مجال نہیں کہ کوئی اس کے ارادہ اور مشیت کی علت اور حکمت پوچھ سکے وہ مالک مطلق ہے اس سے کوئی سوال اور باز پرس نہیں ہوسکتی۔ البتہ تم اس کے بندے ہو۔ اس لیے قیامت کے دن تم سے ضرور ان باتوں کی باز پرس ہوگی جو تم دنیا میں کرتے تھے۔ پھر اس محاسبہ اور مؤاخذہ کے بعد تم میں سے نیکو کار کو جزاء ملے گی اور گنہگار کو سزا ملے گی اور قیامت کے دن جن چیزوں پر باز پس ہوگی اس میں تمہارا نقض عہد بھی ہوگا اور عہد شکنی پر خاص طور پر محاسبہ اور مؤاخذہ ہوگا۔ اب آگے پھر اپنے عہد پر قائم رہنے کی تاکید اور بد عہدی پر تہدید فرماتے ہیں۔ اور مت بناؤ اپنی قسموں کو آپس میں دغا اور دخل اگر تم نے ایسا کیا تو تمہارا قدم جم جانے کے بعد پھسل جائے گا۔ یہ ایک مثل ہے ایسے شخص کی جو سیدھی راہ پر تھا پھر اس کا قدم ڈگمگا گیا مطلب یہ ہے کہ جھوٹی قسموں کو مکرو فریب کا ذریعہ بنا کر راہ راست سے نہ ہٹو۔ استقامت کے بعد طریق ہدایت سے ہٹنا بہت برا ہے اور تم چکھو دنیا میں سزا اس بات کی کہ تم نے عہد شکنی کرکے لوگوں کو راہ خدا سے روکا کیونکہ تمہیں دیکھ کر دوسرے بھی عہد شکنی کریں گے اور غیر مسلم سمجھیں گے کہ جب مسلمان عہدشکن ہیں تو ان کا مذہب بھی عہد شکنی کی تعلیم دیتا ہوگا۔ کم از کم ان کے مذہب میں عہد شکنی کی ممانعت نہ ہوگی یہ دیکھ کر غیر مسلم اسلام سے متنفر ہوجائیں گے اور جس کا اسلام میں داخل ہونے کا ارادہ بھی ہوگا وہا سلام میں داخل نہ ہوگا اس طرح تم لوگوں کو راہ خدا سے روکنے کا ذریعہ بنو گے۔ اور تم کو دنیا میں اس کی برائی چکھنی ہوگی اور آخرت میں تمہارے لیے بہت بڑا عذاب ہوگا۔ جو دنیا کے عذاب سے کہیں زیادہ سخت ہوگا۔ اور چونکہ انسان بعض مرتبہ مال و منال اور جاہ و جلال کو دیکھ کر حرص و طمع میں عہد شکنی کرتا ہے اس لیے آئندہ آیت میں اس کی ممانعت فرماتے ہیں۔ اور اللہ کے عہد کے عوض دنیا کا تھوڑا سا مول نہ لو یعنی دنیوی مال و منال کے حصول کی غرض سے عہد شکنی نہ کرو اور اللہ کے نزدیک ساری دنیا ہی متاع قلیل ہے بیشک جو اجروثواب اللہ کے پاس ہے عہد پورا کرنے کے لیے وہ کہیں بہتر ہے اس مال و متاع سے جو تم کو عہد شکنی پر حاصل ہو اگر ہو تم جانتے۔ خوب سمجھ لو کہ دنیا کا جو عارضی مال و منال ہے وہ نبڑ جائے گا اور ایک نہ ایک دن ختم ہوجائے گا اور جو اجر وثواب دار آخرت میں اللہ کے پاس تمہارے لیے ذخیرہ ہے وہ باقی رہے گا اس کے لیے فناء اور زوال نہیں باقی کے بدلہ میں فانی کو اختیار کرنا نادانی ہے مگر باقی کی امید پر اس دار فانی کے فانی مال و متاع کو ترک کرنے کے لئے صبر عظیم چاہئے اور یہ خیال نہ کرو کہ اس صبر کا اجر مشکوک اور موہوم ہوگا۔ بلکہ قطعی اور یقینی ہے ہم پختہ وعدہ کرتے ہیں کہ ان لوگوں کو جنہوں نے ایفائے عہد اور دیگر احکام دین کی بجا آوری میں جو تکلیف اور مصائب پیش آئیں ان پر صبر کیا۔ یعنی باوجود کفار کے جو روستم کے صبر سے کام لیا اور اپنے عہد و پیمان پر قائم رہے ہم ضرور ان کو اجر دیں گے اور ان کے اعمال کا بہتر سے بہتر بدلہ دیں گے کہ ایک نیکی کا بدلہ کم از کم دس دیں گے جو ہر حال میں ان کے عمل سے بہتر ہوگا اور صبر کو احسن اعمال اس لیے فرمایا کہ تمام اعمال صالحی کی جزا اور بنیاد صبر ہے یا یہ معنی ہیں کہ ہم ان کو بہترین اعمال کے اعتبار سے اجر وثواب دیں گے یعنی ادنیٰ عمل کے مقابلہ میں وہی اجر وثواب دیں گے جو اعلیٰ اور بہترین عمل کے مقابلہ میں دیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے سارے اعمال قبول کریں گے اور کمتر کا ثواب بہتر دینگے (روح المعانی ص 205 ج 14) یہاں تک ایفاء عہد کی تاکید اور نقض عہد پر تہدید تھی اب آئندہ آیت میں تمام اعمال صالحہ کے متعلق ایک عام ضابطہ بیان فرماتے ہیں جس نے نیک عمل کیا خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ صاحب ایمان ہو اس لیے کہ بغیر ایمان کے اعمال صالحہ مقبول نہیں تو ہم ایسے شخص کو دنیا میں پاکیزہ زندگی عطا کریں گے۔ یعنی اس کو حلال روزی اور قناعت اور بھلائی کی توفیق دیں گے یہ پاکیزہ زندگی ہے جو شخص کفاف یعنی بقدر کفایت رزق پر قناعت کرے اور حرص و طمع میں نہ پڑے اس کی زندگی پاکیزہ ہے اور جو حرص و طمع میں پڑا اس کی زندگی بڑی گندی ہے اور ہم ان کو ان کے اعمال کا بہترین ثواب دیں گے جو ان کے اعمال سے کہیں بہتر اور برتر ہوگا حیات طیبہ سے سکون اور اطمینان کی زندگی مراد ہے اور یہ زندگی مطیعین اور صالحین کو حاصل ہوتی ہے۔ حضرات انبیاء اور اولیاء کو مصائب اور تکالیف ضرور پیش آتی ہیں۔ رنج و غم بھی لاحق ہوتا ہے لیکن پریشانی نہیں ہوتی۔ جو حیات طیبہ کے منافی ہو۔ ” ہرچہ ازدوست می رسد نیکو است بلکہ ایلام دوست براز انعام دوست “ کا مضمون ہوتا ہے۔ مصائب پیش نہ آئیں تو صبر کی فضیلت کہاں سے حاصل ہو دوا اگر تلخ بھی ہو تو بہزار رضا ورغبت اس کو استعمال کرتے ہیں کیونکہ نظر اس کے فوائد اور منافع پر ہوتی ہے بہر حال ایمان اور عمل صالح سے قلب میں حق تعالیٰ کی محبت اور عظمت اور قناعت اور رضا و تسلیم کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے جس سے ایسی راحت بخش اور پر لطف و پرسکون زندگی گزرتی ہے جہاں فقیری اور درویشی میں امیری بھی ہیچ معلوم ہونے لگتی ہے دوا اگرچہ طبعا تلخ ہوتی ہے مگر عقلا شیریں اور خوشگوار ہوتی ہے۔ کیونکہ عقل کی نظر دوا کے فوائد پر ہوتی ہے اسی طرح مصائب و آلام میں صاحب بصیرت کی نظر مصائب کے اجر اور ثمر پر ہوتی ہے کہ ان مصائب کا ثمرہ خداوندی اور تکفیر سیئات اور رفع درجات ہے ایسی حالت میں رنج و غم مسرت اور فرحت سے بدل جاتا ہے۔ دنیاوی زندگی میں اگرچہ راحت اور آرام کے کتنے ہی سامان کیوں نہ ہوں مگر تفکرات اور ترددات بھی ساتھ لگے ہوتے ہیں اور بقدر کفایت حلال روزی اور قناعت اور رضا بالقضاء اللہ کی عجب نعمت ہے جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے قناعت کی دولت عطا کی ہے وہ تنگ دستی اور قلت معیشت کے حالات میں بھی پریشان نہیں ہوتے ان کے دل حرص و حسد اور طمع اور غرض سے پاک و صاف ہوتے ہیں ان کے اخلاق و عادات ایسے شائستہ ہوتے ہیں کہ ہر شخص ان سے محبت کرنے لگتا ہے کوئی ان کا دشمن نہیں ہوتا ایسی زندگی پاکیزہ ہوتی ہے۔ خوش آنانی کہ از غم رستگارند بہ کنج بےخودی بنشستگا نند چو شب خسپند بےکین و ستیزند سحرز آنسان کہ می خسپند و خیزند نہ زیشاں بردل مردم غبارے نہ از مردوم بریشاں ہیچ بارے تعلیم طریقہ حفاظت از شر شیطانی اوپر کی آیت میں نیک کام کرنے والوں کی بشارت کا ذکر تھا اور ظاہر ہے کہ عمل صالح کی صلاح اور زبردستی پر موقوف ہے کہ وہ شیطان کے وسوسے سے محفوظ رہے اس لیے آئندہ آیت میں وہ تعلیم فرماتے ہیں جس سے اعمال وساوس شیطانی سے محفوظ رہیں اور وہ تعوذ ہے یعنی اللہ سے پناہ مانگنا۔ یا یوں کہو کہ گزشتہ آیت میں عمل صالح کا ذکر تھا اور قرآن کی تلاوت بہترین عمل صالح ہے اور قرب خداوندی کا بہترین ذریعہ ہے اس لیے آیت آئندہ میں قراءت قرآن کا ادب بیان فرماتے ہیں۔ پس اے بندہ اگر تو اعمال صالحہ میں سے قراءت قرآن جیسے عمل صالح کا ارادہ کرے تو اللہ کی پناہ ڈھونڈھ راندے ہوئے شیطان سے کیونکہ استعاذہ بھی عمل صالح ہے جو شیطان سے محفوظ رہنے کا ذریعہ ہے تحقیق شیطان کا قابو ان لوگوں پر نہیں چلتا جو ایمان لے آئے اور اپنے پروردگار پر بروسہ رکھتے ہیں۔ اس کا قابو تو صرف ان لوگوں پر چلتا ہے جو اسے دوست بنائے ہوئے ہیں۔ اور اس کے اشاروں پر چلتے ہیں جس طرح چاہتا ہے شیطان ان کو انگلیوں پر نچاتا ہے اور اس کا قابو ان لوگوں پر چلتا ہے جو اس کے بہکانے سے شرک کرتے ہیں۔ بعض مرتبہ اگرچہ اہل ایمان بھی شیطان کے بہکانے سے گناہ کر بیٹھتے ہیں۔ اور دھوکہ کھا جاتے ہیں مگر اہل ایمان شیطان کو اپنا بدترین دشمن سمجھتے ہیں جب شیطان ان کو بہکاتا ہے تو حتی الوسع اس کا مقابلہ کرتے ہیں اور اگر کسی وقت پٹخنی کھا جاتے ہیں تو کھڑے ہوجاتے ہیں اور توبہ استغفار کرنے لگتے ہیں کما قال تعالیٰ ان الذین اتقوا اذا مسھم طائف من الشیطن تذکروا فاذا ہم مبصرون و اخوانھم یمدونھم فی الغی ثم لا یقصرون۔ سفیان ثوری (رح) فرماتے ہیں کہ شیطان کے زور کے معنی یہ ہیں کہ بےدھڑک گناہ کرتے ہیں اور شرماتے نہیں اور توبہ نہیں کرتے۔
Top