Anwar-ul-Bayan - Al-Maaida : 2
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَآئِرَ اللّٰهِ وَ لَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَ لَا الْهَدْیَ وَ لَا الْقَلَآئِدَ وَ لَاۤ آٰمِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رِضْوَانًا١ؕ وَ اِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا١ؕ وَ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا١ۘ وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى١۪ وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ١۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) لَا تُحِلُّوْا : حلال نہ سمجھو شَعَآئِرَ اللّٰهِ : اللہ کی نشانیاں وَلَا : اور نہ الشَّهْرَ الْحَرَامَ : مہینے ادب والے وَلَا : اور نہ الْهَدْيَ : نیاز کعبہ وَلَا : اور نہ الْقَلَآئِدَ : گلے میں پٹہ ڈالے ہوئے وَلَآ : اور نہ آٰمِّيْنَ : قصد کرنیوالے ( آنیوالے) الْبَيْتَ الْحَرَامَ : احترام والا گھر (خانہ کعبہ) يَبْتَغُوْنَ : وہ چاہتے ہیں فَضْلًا : فضل مِّنْ رَّبِّهِمْ : اپنے رب سے وَرِضْوَانًا : اور خوشنودی وَاِذَا : اور جب حَلَلْتُمْ : احرام کھول دو فَاصْطَادُوْا : تو شکار کرلو وَلَا : اور نہ يَجْرِمَنَّكُمْ : تمہارے لیے باعث ہو شَنَاٰنُ : دشمنی قَوْمٍ : قوم اَنْ : جو صَدُّوْكُمْ : تم کو روکتی تھی عَنِ : سے الْمَسْجِدِ : مسجد الْحَرَامِ : حرام (خانہ کعبہ) اَنْ تَعْتَدُوْا : کہ تم زیادتی کرو وَتَعَاوَنُوْا : اور ایک دوسرے کی مدد کرو عَلَي الْبِرِّ : نیکی پر (میں) وَالتَّقْوٰى : اور تقویٰ (پرہیزگاری) وَلَا تَعَاوَنُوْا : اور ایک دوسرے کی مدد نہ کرو عَلَي : پر (میں الْاِثْمِ : گناہ وَالْعُدْوَانِ : اور زیادتی (سرکشی) وَاتَّقُوا اللّٰهَ : اور ڈرو اللہ سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : عذاب
اے ایمان والو ! مت حلال کرو اللہ کے شعائر کو، اور نہ حرام کو اور نہ ھدی کو اور نہ پٹے ڈالے ہوئے جانوروں کو، اور نہ ان لوگوں کو جو بیت حرام کا قصد کر کے جا رہے ہوں ! وہ اپنے رب کا فضل اور رضا مندی تلاش کرتے ہیں۔ اور جب تم حلال ہوجاؤ تو شکار کرلو۔ اور ہرگز کسی قوم کی دشمنی کہ انہوں نے تمہیں مسجد حرام سے روکا ہے اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم زیادتی کرو۔ اور آپس میں نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرو، اور گناہ اور زیادتی پر آپس میں مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سخت عذاب والا ہے۔ ''
لَا تُحِلُّوْا شَعَآءِرَ اللّٰہَ کا سبب نزول اس کے بعد فرمایا (یٰٓأَیُّھَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَتُحِلُّوْا شَعَآءِرَاللّٰہِ ) (الایۃ) اس آیت کے سبب نزول کے بارے میں مفسرین نے حضرت عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ شریح بن ضبیعہ کندی یمامہ سے مدینہ منورہ آیا یمامہ ایک علاقہ کا نام ہے اس نے اپنے ساتھیوں کو جو گھوڑوں پر سوار تھے مدینہ منورہ کے باہر چھوڑ دیا اور تنہا آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگیا اور کہنے لگا کہ آپ کس چیز کی دعوت دیتے ہیں آپ نے فرمایا میں لَا الہ اِلَا اللّٰہکی اور نماز قائم کرنے کی اور زکوٰۃ ادا کرنے کی دعوت دیتا ہوں ٗ کہنے لگا کہ یہ تو اچھی بات ہے مگر میرے چند امراء ہیں میں ان کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا امید ہے کہ میں مسلمان ہوجاؤں گا اور ان کو بھی ساتھ لے آؤں گا اس کے آنے سے پہلے آنحضرت ﷺ نے اپنے صحابہ ؓ سے فرما دیا تھا کہ ایک آدمی آرہا ہے جو شیطان کی زبان سے بات کرے گا جب وہ چلا گیا تو آپ نے فرمایا کافر کا چہرہ لے کر داخل ہوا اور دھوکہ باز کے پاؤں کے ذریعہ باہر چلا گیا اور یہ شخض مسلم نہیں ہے جب یہ شخض مدینہ سے باہر نکلا تو وہاں جو جانور (اونٹ وغیرہ) چر رہے تھے انہیں لے کر چلا گیا، حضرات صحابہ نے اس کا پیچھا کیا لیکن اسے پکڑ نہ سکے اس کے بعد یہ واقعہ پیش آیا کہ جب رسول اللہ ﷺ عمرۃ القضاء کے موقع پر تشریف لے جارہے تھے تو یمامہ کے حجاج کے تلبیہ کی آواز سنی آپ نے فرمایا یہ حطم ہے اور اس کے ساتھی ہیں (حطم شریح بن ضبیعہ کا لقب ہے) ان لوگوں نے ان جانوروں کے گلے میں قلادے یعنی پٹے ڈال رکھے تھے جو مدینہ کے باہر چرنے والے جانوروں میں سے لوٹ کرلے گئے تھے اور ان جانوروں کی بطور ھدی کعبہ شریف کی طرف لے جارہے تھے اور ان کے ساتھ بہت سا تجارت کا سامان بھی تھا مسلمانوں نے عرض کیا یَا رَسُوْل اللّٰہ ! یہ حطم جار ہا ہے حج کے لئے نکلا ہے آپ اجازت دیجئے ہم اس کو لوٹ لیں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اس نے ھدی کے جانوروں کو قلادہ ڈال رکھا ہے لہٰذا ان کا لوٹنا صحیح نہیں مسلمانوں نے کہا یہ تو کوئی رکاوٹ کی چیز معلوم نہیں ہوتی یہ کام تو ہم جاہلیت میں کیا کرتے تھے آنحضرت ﷺ نے انکار فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے آیت بالا نازل فرمائی جس میں شعائر اللہ کی بےحرمتی سے منع فرمایا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا شعائر اللہ سے مناسک حج مراد ہیں مشرکین حج بھی کرتے تھے اور کعبے شریف کی طرف جانوروں کو بھی لے جایا کرتے تھے مسلمانوں نے ان کو لوٹنا چاہاتو اللہ تعالیٰ نے منع فرما دیا۔ حضرت عطاء سے مروی ہے کہ شعائر سے اللہ تعالیٰ کے حدود اور اوامر اور نواہی اور فرائض مراد ہیں۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ شعائر اللہ سے صفا مروہ اور وہ جانور مراد ہیں جو کعبہ شریف کی طرف بطور ھدی لے جائے جاتے ہیں۔ شعائر اللہ کی تعظیم کا حکم اللہ تعالیٰ نے شعائر کی تعظیم کے بارے میں سورة حج میں ارشاد فرمایا (وَمَنْ یُعَظِّمْ شَعَآءِرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ ) (یعنی جو شخص اللہ کے شعائر کی تعظیم کرے تو یہ قلوب کے تقویٰ کی بات ہے۔ ) شعائر اللہ کی بےحرمتی کی ممانعت کے بعد (اَلشَّھْرُ الْحَرَامُ ) کی بےحرمتی سے بھی منع فرمایا کہ اس میں کافروں سے جنگ نہ کی جائے، اور ھدی کی بےحرمتی کرنے سے بھی منع فرمایا۔ ھدی وہ جانور ہے جو کعبہ شریف کی طرف لے جایا جائے اور حدود حرم میں اللہ کی رضا کیلئے ذبح کردیا جائے۔ اور قلائد کی بےحرمتی سے بھی منع فرمایا، یہ قلادہ کی جمع ہے ھدی کے جانوروں کے گلوں میں پٹے ڈال دیا کرتے تھے تاکہ یہ معلوم ہو کہ یہ ھدی ہے اور کوئی اس سے تعرض نہ کرے۔ قلائد کی بےحرمتی کی ممانعت سے مراد یہ ہے کہ جن جانوروں کے گلوں میں یہ پٹے پڑے ہوں ان کی بےحرمتی نہ کی جائے ان کو لوٹا نہ جائے۔ بعض حضرت نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس سے اصحاب قلائدمراد ہیں کیونکہ زمانہ جاہلیت میں عرب کے لوگ مکہ معظمہ کے درختوں کی چھال لے کر اپنے گلوں میں ڈال لیا کرتے تھے۔ جب اشہرالحرم گزر جاتے اور گھروں کو واپس جانا چاہتے تو اپنے گلوں میں اور جانوروں کے گلوں میں یہ پٹے ڈالے رکھتے تھے تاکہ اپنے گھروں میں امن سے پہنچ جائیں۔ پھر فرمایا (وََلَآ ا آمِّیْنَ الْبَیْتَ الحَرَام) یعنی جو لوگ بیت حرام کا قصد کر کے جارہے ہوں ان کی بھی بےحرمتی نہ کرو اور ان سے تعرض نہ کرو۔ لفظ ” ا آمِیْن “ أَمَّ یَأَمُّ بمعنی قَصَدَ یَقصُدْ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے اس کے عموم میں حج کی نیت سے جانے والے اور عمرہ کی نیت سے جانے والے سب داخل ہوگئے ان کی صفت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (یَبْتَغُوْنَ فَضْلَا مِّنْ رَّبِّھِمْ وَرِضْوَانًا) (کہ یہ لوگ اپنے رب کا فضل اور اس کی رضا مندی چاہتے ہیں) فضل سے مال تجارت کا نفع مراد ہے اور رضوان سے اللہ کی رضا مندی مراد ہے مشرکین جو حج کرتے تھے اپنے خیال میں وہ اللہ کو راضی کرنے کے لیے حج کرتے تھے جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اس وقت تک مشرکین کو حج کرنے سے منع کیا گیا تھا اور مکہ معظمہ فتح نہیں ہوا تھا۔ بعد میں جب 8 ھ میں مکہ معظمہ فتح ہوگیا اور 9 ھ میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی امارت میں حج ہوا تو یہ اعلان فرما دیا کہ اَلَا لاَیَحُجَّنَّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِکٌ وََلَا یُطَوَّفَنَّ بالْبَیْتِ عُرْیَانًا کہ خبردار اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور کوئی ننگا ہو کر بیت اللہ کا طواف نہ کرے۔ (مشرکین ایسا کیا کرتے تھے) اور سورة براءۃ میں فرمایا (یٰٓاُیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْااِنِّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوْا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِھِمْ ھٰذَا) (کہ اے ایمان والو ! مشرکین نجس ہیں سو مسجد حرام کے قریب نہ جائیں اس سال کے بعد لہٰذ اب کسی کافر کو حج کرنے کی اجازت نہیں۔ ) وہ ھدی اور قلائدلے کر آئے گا تو مامون نہ ہوگا مسلمانوں کے حق میں بدستور آیت کا سب مضمون باقی ہے حجاج بیت اللہ کو اور عمرہ کی نیت سے جانے والوں کو اور ھدی کو تعرض کرنا ممنوع ہے اشہر حرم میں جو کافروں سے قتال کی ممانعت تھی وہ منسوخ ہے جیسا کہ سورة بقرہ میں گزر چکا ہے۔ احرام سے نکل کر شکار کرنے کی اجازت پھر فرمایا (وَاِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا) (کہ جب تم حلال ہوجاؤ یعنی قائدہ شرعیہ کے مطابق احرام سے نکل جاؤ تو شکار کرلو) یہ امرا باحت ہے مطلب یہ ہے کہ حالت احرام میں جو خشکی کا شکار کرنے کی ممانعت تھی اب احرام سے نکلنے کے بعد ختم ہوگئی۔ البتہ حرم کا شکار کرنا غیراحرام میں بھی ممنوع ہے جس کی تصریح احادیث شریفہ میں آئی ہے۔ کسی قوم کی دشمنی زیادتی پر آمادہ نہ کرے پھر فرمایا (وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا) (کہ تمہیں کسی قوم کی دشمنی اس وجہ سے کہ انہوں نے تمہیں مسجد حرام سے روک دیا اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم زیادتی کرو) 6 ھ میں جب رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ ؓ کے ساتھ عمرہ کرنے کیلئے تشریف لے جارہے تھے تو مشرکین مکہ نے آپ کو عمرہ نہیں کرنے دی اور حدیبیہ کے مقام پر آپ کو روک دیا لہٰذا آپ اور آپ کے صحابہ محصر ہونے کی وجہ سے جانور ذبح کر کے احرام سے نکل گئے اور مشرکین سے چند شرطوں پر صلح ہوگئی۔ آپ مدینہ منورہ تشریف لائے اور اگلے سال عمرہ کی قضا کی، مشرکین مکہ نے صلح کی بعض شرطوں کی خلاف ورزی کی جس کی وجہ سے آپ اپنا لشکر لے کر 8 ھ میں تشریف لے گئے اور مکہ معظمہ فتح ہوا۔ اب جب مسلمانوں کے ہاتھ میں اقتدار آگیا تو یہ صحابہ مشرکین مکہ سے بدلہ لے سکتے تھے۔ لہٰذا ان کو منع فرمایا کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں ظلم و زیادتی کرنے پر آمادہ نہ کرے۔ جب مسجد حرام سے روکنے والوں کے بارے میں یہ ارشاد ہے کہ ان کی دشمنی تمہیں ظلم و زیادتی پر آمادہ نہ کرے تو دنیاوی اعتبار سے جو رنجشیں اور دشمنیاں پیدا ہوجاتی ہیں ان کی وجہ سے کسی پر ظلم و زیادتی کرنا کیسے جائز ہوسکتا ہے اگر کوئی شخص ظلم کرے تو بہت سے بہت اس کے ظلم کے بقدر بدلہ لیا جاسکتا ہے اور معاف کردینا افضل ہے۔ ظلم کے بدلے ظلم کرنا یعنی جس سے کوئی تکلیف پہنچی ہے اس سے زیادہ تکلیف پہنچانا جائز نہیں ہے۔ مسلمانوں پر فرض ہے کہ ہمیشہ عدل و انصاف پر قائم رہیں اس میں دوست دشمن سب برابر ہیں۔ اسی سورت کے دوسرے رکوع میں ارشاد ہے (وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَنْ لَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ للتَّقْوٰی) (کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو وہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے۔ ) نیکی اور تقویٰ پر تعاون کرنے کا حکم اس کے بعد ارشاد فرمایا (وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی) (کہ آپس میں نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرو) اس عمومی حکم میں سینکڑوں مسائل داخل ہیں۔ تعاون یعنی آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کی بہت سی صورتیں تو ایسی ہیں جو لوگوں نے اپنی دنیاوی ضروریات کے لئے اختیار کر رکھی ہیں کسی نے کپڑے کا کارخانہ جاری کر رکھا ہے اور کوئی شخص اپنی فیکٹری میں جوتے بناتا ہے، کسی نے پھلوں کے باغ لگائے ہیں، کسی نے کھیتی پر توجہ دی ہے۔ کسی نے انجینئرنگ کو اختیار کیا ہے اور تعمیرات کے نقشے بنانے کوا پنا پیشہ بنا رکھا ہے اور کسی نے نقشوں کے مطابق مکانات تعمیر کرنے کا کام اپنے ذمہ لے رکھا ہے۔ اسی طرح سے مل ملا کر دنیاوی حاجات اور ضروریات پوری ہو رہی ہیں۔ جو بھی کوئی شخص کوئی بھی نیکی کرنے کا ارادہ کرے کسی بھی گناہ سے بچنا چاہے ہر شخص بقدرا پنی قوت و طاقت کے اس کی مدد کرے، جو لوگ علم دین حاصل کرنا چاہیں ان کی سب مدد کریں۔ مدرسے بنانے والوں کی، مسجد تعمیر کرنے والوں کی، مبلغین کی، مصنّفین کی، مجاہدین کی اور ہر نیک کام کرنے والوں کی مدد کی جائے یہ مومن کی زندگی کا بہت بڑا اصول ہے۔ یہ جو آج کل فضابنی ہوئے کہ جو شخص خیر کی دعوت لے کر کھڑاہو، خیر کے کام کرنے کے لئے فکر مند ہو، اس کی مدد کی طرف تو جہ نہیں کی جاتی یہ اہل ایمان کی شان کے خلاف ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ جتنی زمین پر مسلمانوں کا قبضہ ہے سب کی ایک ہی حکومت ہوتی ایک امیر المومنین ہوتا، سب مل کر آپس میں تعاون کی زندگی گزارتے۔ امیر اور مامورمل کر باہم ایک دوسرے کی مدد کرتے لیکن جب بہت سی حکومتیں بنالیں اور ایک ہونے کو تیار نہیں تو کم از کم آپس میں تعاون تو رکھیں نہ ایک دوسرے سے لڑیں نہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچائیں اور ہر کارخیر میں اور دینی امور میں ہر حکومت دوسری حکومت کے ساتھ تعاون کرے افراد ہوں یا جماعت سب باہمی تعاون کی زندگی اختیار کریں۔ مسلمانوں کی عجیب حالت اگر مسلمانوں کا کوئی سربراہ اسلام کے مطابق حکومت چلانے کا اعلان کر دے یا اعلان کرنا چاہے تو عوام بھی مخالفت کرتے ہیں اور مغربی ذہن رکھنے والے پڑھے لکھے لوگ بھی، اور کافروں کی حکومت بھی رخنہ ڈال دیتی ہیں اور مسلمانوں کی حکومتیں تعاون نہیں کرتیں۔ اس صورت حال کی وجہ سے اجتماعی اور انفرادی اعمال خیر میں جو تعاون ہوسکتا تھا اس کی صورتیں بنتی ہوئی بھی بگڑ جاتی ہیں۔ گناہ اور ظلم پر مدد کرنے کی ممانعت پھر فرمایا (وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ) (اور نہ مدد کرو گناہ پر اور ظلم پر اور اللہ سے ڈرو ! بیشک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے) ان الفاظ میں دوسرے رخ پر تنبیہ فرمائی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بر اور تقویٰ پر تو آپس میں تعاون کرو لیکن گناہ، ظلم اور زیادتی پر ایک دوسرے کا تعاون نہ کرو۔ قرآن کریم کی یہ نصیحت بھی بہت اہم ہے۔ آج کل جہاں بر اور تقویٰ پر مدد کرنے کے جذبات سے مسلمان خالی ہیں، وہاں دوسرے رخ کے جذبات ان میں موجود ہیں گناہ اور ظلم و زیادتی پر کھلے دل سے مدد کی جاتی ہے۔ تعصب کی تباہ کاری آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کا معیار دنیاداری کے اصول پر رہ گیا ہے عموماً اپنوں کی مدد کی جاتی ہے، اپنوں میں اپنے رشتہ دار اپنے ہم زبان اپنے ہم وطن اپنی جماعت کا فرد اپنی پارٹی کا ممبر دیکھا جاتا ہے حق اور ناحق کو نہیں دیکھا جاتا۔ اگر دو آدمیوں میں کسی قسم کا جھگڑا ہو تو جو بھی ( کوئی شخص اپنا ہو جس کی قدرے تفصیل ابھی بیان ہوئی) بس اس کی مدد کی جاتی ہے اس کا دعویٰ ناحق ہو اور فریق ثانی پر ظلم کر رہا ہو تب بھی اس کا ساتھ دیں گے اور اس کی طرف سے بولیں گے یہ نہ دیکھیں گے کہ اس شخص کی زیادتی ہے جسے ہم اپنا سمجھ رہے ہیں ہم ظالم کے ساتھ کیوں ہوں۔ یہ ایک ایسی وباء ہے جس میں بہت سے دینداری کے دعویدار بھی ملوث ہوجاتے ہیں۔ گناہ اور ظلم پر مدد کرنا حرام ہے۔ ظالم اپنا ہو یا پرایا اس کی مدد کرنے کا شرعاً کوئی جواز نہیں۔ حضرت اوس بن شرحبیل ؓ نے بیان فرمایا کہ میں نے رسول ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص کسی ظالم کے ساتھ اس لئے گیا کہ اسے تقویت پہنچائے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ ظالم ہے تو یہ شخص اسلام سے نکل گیا۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 436 از شعب الایمان) گناہوں کی مدد کرنے کی چند صورتیں جو رواج پذیر ہیں جس نوکری یا جس عہدہ کی وجہ سے گناہ کرنا پڑتا ہو ایسی نوکری اور ایسا عہدہ قبول کرنا حرام ہے گناہ کا قانون بنانا بھی حرام ہے کیونکہ اس سب میں گناہ کی مدد ہے گناہ کی اجرت بھی حرام ہے۔ اگر کوئی شخص شراب کے کارخانے میں کام کرے یا بنک میں کام کرے (کوئی بھی چھوٹا بڑا کام ہو) سٹے بازوں کے ہاں ملازم ہو یا کسی بھی طرح ان کا تعاون کرتا ہو، پولیس میں ملازم ہو جو غیر شرعی امور میں دوسروں کی مدد کرتا ہو یا رشوت لیتا ہو یا رشوت دینے دلانے کا واسطہ بنتا ہو یا جو شخص کسی ایسے محکمے کا ملازم ہو جس میں ٹیکس وصول کرنا پڑتا ہو تو یہ ملازمتیں حرام ہیں اور ان کی تنخواہیں بھی حرام ہیں۔ چوروں کی مدد ڈاکوؤں کی مدد، لوٹنے والوں کی مدد، غصب کرنے والوں کی مدد، ظالمانہ مار پیٹ کرنے والوں کی مدد یہ سب حرام ہے۔ کسی بھی گناہ کے ذریعہ جو پیسہ کمایاجائے وہ بھی حرام ہے۔ بہت سے لوگ دوسروں کی دنیا بنانے کے لیے اپنی آخرت تباہ کرتے ہیں یعنی ظلم اور گناہ پر مدد کرتے ہیں تاکہ کسی دوسرے کو نوکری یا عہدہ مل جائے یا قومی یا صوبائی اسمبلی کا ممبر ہوجائے الیکشن ہوتے ہیں ووٹر اور سپورٹر یہ جانتے ہوئے کہ جس امیدوار کے لیے ہم کوشش کر رہے ہیں یا جسے ہم ووٹ دے رہے ہیں یہ فاسق فاجر ممبر ہو کر اس کا فسق و فجور اور زیادہ بڑھ جائے گا پھر بھی اس کی مدد میں لگے ہوئے ہیں اس کو کامیاب کرنے کے لئے اس کے مقابل کی غیبتیں بھی کرتے ہیں اور اس پر تہمتیں بھی دھرتے ہیں حتیٰ کہ اس کی جماعت کے لوگوں کو قتل تک بھی کردیتے ہیں۔ یہ کتنی بڑی حماقت ہے کہ دنیا دوسرے کی بنے اور آخرت کی بربادی اپنے سر تھوپ لیں۔ اسی کو آنحضرت ﷺ نے ارشارد فرمایا من شرالناس منزلۃ یوم القیامۃ عبداذھب اٰخرتہ بدنیا غیرہ (قیامت کے دن بدترین لوگوں میں سے وہ شخص بھی ہوگا جس نے دوسرے کی دنیا کی وجہ سے اپنی آخرت برباد کردی ) ۔ (رواہ ابن ماجہ باب اذالتقی المسلمان بسیفہما ) دیکھا جاتا ہے کہ جو شخص سنت کے مطابق کپڑے پہننا چاہے، شکل و صورت میں وضع قطع اسلامی رکھنا چاہے اس کے گھر والے، دفتر والے، بازار والے کوشش کرتے ہیں کہ یہ نیکی کا کام چھوڑ دے اور گناہ والی زندگی اختیار کرے اور ہمارے جیسا فاسق فاجر ہوجائے۔ خیر کے کاموں میں مدد دینے کو تیار نہیں لیکن اگر کوئی شخص گناہ گاری کے کام کرنے لگے تو اس کی مدد کرنے کے تیار ہیں۔ حرام کمائے، رشوت لے، داڑھی مونڈھے بیوی خوش، ماں باپ بھی خوش اور اپنے ماحول اور سوسائٹی کے لوگ بھی خوش۔ اور اگر حلال پر گزراہ کرنے کا خیال کرے تو سب ناراض۔ اپنے پاس سے ٹکٹ کے پیسے خرچ کر کے دوستوں کو سینماؤں میں رقص و سرور کی مجلسوں میں لے جاتے ہیں دھوکہ دے کر بال بر کی دکان میں لے جا کر اپنے دوست کی داڑھی منڈا دیتے ہیں اور پیسے بھی اپنے سے دے دیتے ہیں، موجودہ معاشرہ کا یہ جاہلانہ مزاج بنا ہوا ہے کہ نیکی کی مدد سے جان چراتے ہیں اور گناہوں کی مدد کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ یہ زندگی ہمیشہ نہیں ہے اور دنیا ختم ہوجائے گی اس کے ختم ہونے سے پہلے موجودہ دور کے افراد اپنی موت مرجائیں گے اس ذرا سی زندگی کو گناہوں میں پڑ کر اور گناہوں کی مدد کر کے برباد کرنا جس کے نتیجہ میں آخرت برباد ہو کوئی سمجھ داری کی بات نہیں ہے۔ ہر معاملہ میں آخرت کے لئے فکر مند ہونا لازم ہے۔ ہمیشہ اللہ سے ڈریں اور بار بار اس کا مراقبہ کریں اللہ جل شانہ، سخت عذاب دینے والا ہے۔ آیت کے ختم پر اسی کی طرف متوجہ فرمایا اور ارشاد فرمایا (وَ اتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ) (اللہ سے ڈور بلا شبہ اللہ سخت عذاب والا ہے )
Top