Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Anwar-ul-Bayan - Al-Maaida : 3
حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَ الْمُنْخَنِقَةُ وَ الْمَوْقُوْذَةُ وَ الْمُتَرَدِّیَةُ وَ النَّطِیْحَةُ وَ مَاۤ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّیْتُمْ١۫ وَ مَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ١ؕ ذٰلِكُمْ فِسْقٌ١ؕ اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِیْنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِ١ؕ اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا١ؕ فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَةٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ١ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
حُرِّمَتْ
: حرام کردیا گیا
عَلَيْكُمُ
: تم پر
الْمَيْتَةُ
: مردار
وَالدَّمُ
: اور خون
وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ
: اور سور کا گوشت
وَمَآ
: اور جو۔ جس
اُهِلَّ
: پکارا گیا
لِغَيْرِ اللّٰهِ
: اللہ کے سوا
بِهٖ
: اس پر
وَ
: اور
الْمُنْخَنِقَةُ
: گلا گھونٹنے سے مرا ہوا
وَالْمَوْقُوْذَةُ
: اور چوٹ کھا کر مرا ہوا
وَالْمُتَرَدِّيَةُ
: اور گر کر مرا ہوا
وَالنَّطِيْحَةُ
: اور سینگ مارا ہوا
وَمَآ
: اور جو۔ جس
اَ كَلَ
: کھایا
السَّبُعُ
: درندہ
اِلَّا مَا
: مگر جو
ذَكَّيْتُمْ
: تم نے ذبح کرلیا
وَمَا
: اور جو
ذُبِحَ
: ذبح کیا گیا
عَلَي النُّصُبِ
: تھانوں پر
وَاَنْ
: اور یہ کہ
تَسْتَقْسِمُوْا
: تم تقسیم کرو
بِالْاَزْلَامِ
: تیروں سے
ذٰلِكُمْ
: یہ
فِسْقٌ
: گناہ
اَلْيَوْمَ
: آج
يَئِسَ
: مایوس ہوگئے
الَّذِيْنَ كَفَرُوْا
: جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) سے
مِنْ
: سے
دِيْنِكُمْ
: تمہارا دین
فَلَا تَخْشَوْهُمْ
: سو تم ان سے نہ ڈرو
وَاخْشَوْنِ
: اور مجھ سے ڈرو
اَلْيَوْمَ
: آج
اَكْمَلْتُ
: میں نے مکمل کردیا
لَكُمْ
: تمہارے لیے
دِيْنَكُمْ
: تمہارا دین
وَاَتْمَمْتُ
: اور پوری کردی
عَلَيْكُمْ
: تم پر
نِعْمَتِيْ
: اپنی نعمت
وَرَضِيْتُ
: اور میں نے پسند کیا
لَكُمُ
: تمہارے لیے
الْاِسْلَامَ
: اسلام
دِيْنًا
: دین
فَمَنِ
: پھر جو
اضْطُرَّ
: لاچار ہوجائے
فِيْ
: میں
مَخْمَصَةٍ
: بھوک
غَيْرَ
: نہ
مُتَجَانِفٍ
: مائل ہو
لِّاِثْمٍ
: گناہ کی طرف
فَاِنَّ اللّٰهَ
: تو بیشک اللہ
غَفُوْرٌ
: بخشنے والا
رَّحِيْمٌ
: مہربان
'' حرام کیا گیا تم پر مردہ جانور اور خون اور خنزیر کا گوشت اور وہ جانور جس پر غیر اللہ کا نام پکارا گیا، اور وہ جانور جو گلا گھٹنے سے مرجائے، اور وہ جانورجو کسی ضرب سے مرجائے اور وہ جانور جو اوپر سے گر کر مرجائے، اور وہ جانور جو کسی سے ٹکڑا کر مرجائے اور وہ جانور جسے کسی درندہ نے کھالیا مگر وہ جسے تم ذبح کرلو، اور حرام کیا گیا ہے وہ جانور جو ذبح کیا گیا پرستش گاہوں پر، اور یہ بھی حرام کیا گیا کہ تقسیم کرو تیروں کے ذریعہ، یہ سب گناہ کے کام ہیں۔ '' '' آج کافر تمہارے دین سے ناامید ہوگئے سو ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے پورا کردیا تمہارا دین اور میں نے تم پر اپنی نعمت پوری کردی، اور میں نے تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر اختیار کرنے کے لیے پسند کرلیا سو جو کوئی شخص مجبور ہوجائے سخت بھوک میں جو گناہ کی طرف مائل ہونے والا نہ ہو سو یقینا اللہ غفور رحیم ہے۔ ''
جن جانوروں کا کھانا حرام ہے ان کی تفصیلات گزشتہ آیت میں بتایا تھا کہ بہیمتہ الانعام تمہارے لئے حلال کردیئے گئے ساتھ یہ بھی فرمایا (اِلَّا مَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ ) کہ ان حلال جانوروں میں جو جانور حرام ہیں وہ تمہیں بتا دیئے جائیں گے، چناچہ اس آیت میں ان جانوروں کا ذکر ہے جو زندہ ہونے کی صورت میں شرعی طریقے پر ذبح کر لئے جائیں تو ان کا کھانا حلال ہوجاتا ہے لیکن جب ان میں بعض صفات ایسی پیدا ہوگئیں جن کی وجہ سے حرمت آگئی تو ان کا کھاناحلال نہ رہا۔ میتہ (مردار) ان میں اول میتہ کی حرمت کا ذکر فرمایا، میتہ ہر وہ جانور ہے جو شرعی طریقے پر ذبح کئے بغیر مرجائے خواہ یوں ہی اس کی جان نکل جائے خواہ کسی کے مار دینے سے مرجائے۔ گائے، بیل، بھینس اونٹ اونٹنی، بکرا بکری، ہرن، نیل گائے اور تمام وہ جانور جن کا کھانا حلال ہے اگر وہ ذبح شرعی کے بغیر مرجائیں تو ان کا کھانا حرام ہوجاتا ہے۔ البتہ مچھلی چونکہ ذبح کئے بغیر ہی حلال ہے اس لئے اگر خشکی میں آنے کے بعد اپنی موت مرجائے تو اس کا کھانا جائز ہے اور خشکی کے جانوروں میں ٹڈی بھی بغیر ذبح کئے ہوئے حلال ہے اگر وہ اپنی موت مرجائے تو اس کا کھانا بھی حلال ہے۔ مسئلہ : ذبح شرعی سے پہلے زندہ جانور سے جو کوئی جسم کا حصہ کاٹ لیا جائے تو وہ بھی میتہ (مردار) کے حکم میں ہے اور اس کا کھاناحرام ہے۔ حضرت ابو واقد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ میں تشریف لائے اور اس سے پہلے اہل مدینہ کی یہ عادت تھی کہ زندہ اونٹوں کے کوہان اور دنبوں کی چکتیاں کاٹ لیتے تھے اور ان کو کھا جاتے تھے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ زندہ جانور سے جو حصہ کاٹ لیا جائے وہ میتہ ہے یعنی مردار ہے۔ ( رواہ الترمذی و ابوداؤ ) جس طرح مردار جانور کا کھانا حرام ہے اسی طرح اس کی خرید فروخت بھی حرام ہے۔ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے سال ارشاد فرمایا جبکہ آپ مکہ معظمہ ہی تشریف فرما تھے کہ بلا شبہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے شراب اور میتہ (مردہ جانور) اور خنزیر اور بتوں کے بیع کو حرام قرار دیا۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ ﷺ مردہ جانور کی چربیوں کے بارے میں ارشاد فرمائیے (کیا ان کو بیچنا بھی حرام ہے ؟ ) ان سے کشتیوں کو روغن کیا جاتا ہے اور چمڑوں میں بطور تیل کے استعمال کی جاتی ہیں اور ان کے ذریعے لوگ چراغ جلاتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا چربی بھی حلال نہیں ہے وہ بھی حرام ہے پھر فرمایا اللہ لعنت فرمائے یہودیوں پر بلاشبہ اللہ نے ان پر مردہ جانور کی چربی حرام فرمائی تھی انہوں نے اسے خوب صورت چیز بنا دیا (یعنی اسے پگھلاکر اس میں کچھ اور چیز ملا کر اپنے خیال میں اسے اچھی شکل دیدی) پھر اسے بیچ کر اس کی قیمت کھا گئے۔ (راوی البخاری و مسلم) معلوم ہوا کہ مردار جانور کا گوشت اور چربی دونوں حرام ہیں ان کا کھانا بھی حرام ہے اور کا بیچنا بھی حرام ہے حدیث بالا سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حرام چیز کو خوبصورت بنا دینے سے اس میں کچھ ملا دینے سے اس کا نام بدل دینے سے اسے خوبصورت پیکٹوں میں پیک کردینے سے حلال نہیں ہوجاتی اس کا بیچنا اس کی قیمت کھانا حسب سابق حرام ہی رہتا ہے۔ مردار کی کھال کا حکم جو جانور بغیر ذبح شرعی کے مرجائے اس کی کھال بھی ناپاک ہے اور اس کی کھال کا بیچنا بھی حرام ہے لیکن اگر اس کی دباغت کردی جائے یعنی اس کو مصالحہ لگا کر یا دھوپ میں ڈال کر اسے سڑنے سے محفوظ کردیا جائے تو یہ کھال پاک ہوجاتی ہے پھر اس سے نفع اٹھانا اور بیچنا اور اس کی قیمت لینا حلال ہوجاتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب کچے چمڑے کی دباغت کردی جائے تو وہ پاک ہوجاتا ہے ( رواہ مسلم ) ۔ نیز حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ ام المومنین حضرت میمونہ ؓ کی آزاد کردہ ایک باندی کو ایک بکری بطور صدقہ دی گئی تھی وہ بکری مرگئی۔ رسول اللہ ﷺ وہاں سے گزرے تو ارشا فرمایا کہ تم نے اس کا چمڑہ لے کر اس کی دباغت کیوں نہ کرلی۔ دباغت کر کے اس سے نفع حاصل کرتے، عرض کیا کہ یہ میتہ یعنی مردار ہے آپ نے فرمایا اس کا کھانا ہی حرام کیا گیا ہے (یعنی چمڑا دباغت کے بعد ناپاک نہیں رہتا اس سے انتفاع جائز ہے البتہ اس کا گوشت حلال نہیں ) ۔ (مشکوٰۃ المصابیح 52) خون کھانے کی حرمت دوسرے نمبر پر الدم یعنی خون کا ذکر اس سے دم مسفوح (بہتا ہوا خون) مراد ہے۔ جس کی تصریح سورة انعام کی آیت میں کردی گئی ہے۔ اور فرمایا (قُلْ لَّآ اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہٗٓ اِلَّآ اَنْ یَّکُوْنَ مَیْتَۃً اَوْدَمًا مَّسْفُوْحًا) مَسْفُوْحَا (الآیۃ) کی قید لگانے سے تلی اور جگر کھانے کی حلت معلوم ہوگئی وہ دونوں بھی خون ہیں لیکن جمے ہوئے ہوئے خون ہیں بہتا ہوا خون نہیں ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا دو ایسے جانور ہمارے لئے حلال کر دئے ہیں جو اپنی موت مرجائیں۔ مچھلی اور ٹڈی اور دو خون ہمارے لئے حلال کردیئے گئے ہیں جگر اور تلی۔ (رواہ احمد، ابن ماجہ و دار قطنی مشکوٰۃ المصابیح ص 362) مسئلہ : شرعی ذبح کے بعد گلے کی رگوں سے دم مسفوح نکل جاتا ہے اس کے بعد جو خون بوٹیوں میں رہ جاتا ہے وہ پاک ہے اس کا کھانا جائز ہے کیونکہ وہ دم مفسوح نہیں البتہ ذبح کے وقت جو خون نکلا ہے وہ کھال یا گوشت یا پروں میں لگ جائے وہ ناپاک ہے۔ ہمارے دیار میں خون کھانے کا رواج نہیں ہے قرآن کریم سارے عالم کے لئے ہدایت ہے۔ نزول قرآن کے وقت سے لے کر قیامت قائم ہونے تک جس علاقے میں جہاں بھی جس طرح سے بھی لوگ خون کھائیں ان سب کے لئے قرآن نے حرمت کی تصریح کردی۔ بعض اکابر سے سنا ہے کہ اہل عرب خون کو آنتوں میں بھر کر تیل میں تل لیا کرتے تھے پھر اسے کباب کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کر کے کھاتے تھے۔ مسئلہ : خون کا کھانا پینا بھی حرام ہے اس کی خریدو فروخت بھی حرام ہے اس کے ذریعے جو آمدنی ہو وہ بھی حرام ہے بعض لوگ ہسپتالوں میں خون فروخت کرتے ہیں وہ حرام ہے اس کی قیمت بھی حرام ہے۔ خنزیر کا گوشت تیسرے نمبر پر لحم الخنزیر سور کا گوشت حرام ہونے کی تصریح فرمائی۔ سور کا ہر ہر جزو ناپاک اور نجس العین ہے اس کا گوشت ہو یا چربی یا کوئی بھی جزو ہو اس کا کھانا حرام ہے۔ اور بیچنا خریدنا بھی حرام ہے۔ سورة انعام میں فرمایا (فَاِنَّہٗ رَجْسٌ) (بلاشبہ وہ ناپاک ہے) نجس العین ہونے کے وجہ سے اس کی کھال بھی دباغت سے پاک نہیں ہوسکتی۔ اس جانور کے کھانے سے انسانوں میں بےحیائی پیدا ہوتی ہے جو قومیں اسے کھاتی ہیں ان کی بےحیائی کا جو حال ہے ساری دنیا کو معلوم ہے۔ یورپ امریکہ آسٹریلیا وغیرہ میں بعض مسلمان ایسے ہیں جنہوں نے محلوں میں دکانیں کھول رکھی ہیں وہ سور کا گوشت اور دوسرے حرام گوشت بھی فروخت کرتے ہیں یہ سب حرام ہے اور اس کی قیمت بھی حرام ہے جو لوگ ان کی دکانوں میں کام کرتے ہیں وہ چونکہ گناہ کے مددگار ہیں اس لئے ان کا سیل میں بننا اور خریداروں کو یہ چیزیں اٹھا کردینا بھی حرام ہے۔ مَآاُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ چوتھی جزو جس کے حرام ہونے کی تصریح فرمائی وہ (اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ ) ہے لفظ سے ماضی مجہول کا صیغہ ہے اھلال کا معنی ہے آواز بلند کرنا یہاں جانوروں کو ذبح کرتے وقت جو کسی کا نام پکارا جاتا ہے اس کے لئے یہ لفظ استعمال فرمایا ہے جو جانور حلال ہو اور اسے اللہ کے نام لے کر ذبح کردیا جائے تو اس کا کھانا حلال ہے اور اگر اللہ کے نام کے علاوہ کسی دوسرے کا نام لے لیا جائے تو وہ حرام ہوجاتا ہے جو میتہ یعنی مردار کے حکم میں ہے۔ مشرکین بتوں کا اور دیوی دیوتا کا نام لے کر جانور کو ذبح کرتے ہیں ایسے جانور کا کھاناحرام ہے۔ جو لوگ کتابی یعنی یہودی یا نصرانی نہیں ہیں (جیسے ہندوستان کے ہندو) وہ اللہ کے نام لے کر ذبح کریں تب بھی جانور مردار کے حکم میں ہوگا، جس جانور کو غیر اللہ کے لئے نامز کردیا گیا لیکن ذبح کیا گیا اللہ کا نام لے کر اس کے بارے میں چند صفحات کے بعد وضاحت کی جائے گی۔ انشاء اللہ العزیز ! المُنْخَنِقَۃ : پانچویں چیز جس کے حرام ہونے کی تصریح فرمائی ہے وہ المنخنقۃ ہے انخناق سے اسم فاعل کا صیغہ ہے خنق یخنق گلا گھونٹا اور انخنق ینخنق گلا گھٹ جانا۔ اگر کسی جانور کا گلا گھونٹ کر مار دیا جائے اگرچہ اس پر اللہ کا نام لیا جائے یا جانور کا گلا گھٹنے سے مرجائے (مثلاً جانور کے گلوں میں جو رسی بندھی ہوتی ہے وہ کس جائے جس سے جانور مرجائے) تو یہ جانور حرام ہے۔ الموقوذۃ : چھٹی چیز جس کے حرام ہونے کی تصریح فرمائی وہ الموقوذۃ ہے یہ وقذ یقذ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے جس جانور کو لاٹھی یا پتھر وغیرہ سے مار کر ہلاک کردیا جائے وہ موقوذہ ہے اور اس کا کھانا حرام ہے اس میں وہ جانور بھی داخل ہے جس کو شکاری نے تیر مارا لیکن اس کے تیر کی دھار جانور کے نہ لگی بلکہ لمباؤ میں تیر جاکر لگا اور اس کی ضرب میں جانور مرگیا۔ ایسے جانور کا کھانا بھی حرام ہے اگرچہ بسم اللہ پڑھ کر تیر پھینکا ہو۔ حضرت عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! میں ایسے تیر سے شکار کرتا ہوں جس میں پر نہیں ہوتے ( تو کیا اس کا کھانا حلال ہے ؟ ) آپ نے فرمایا جس جانور کو تیرا تیر زخمی کر دے اس کو کھالے اور جس جانور کو تیرے مذکورہ تیرہ کا چوڑائی والا حصہ قتل کر دے تو وہ موقوذہ ہے اس کو مت کھاؤ (راوہ البخاری و مسلم ) بندوق کا شکار بندوق کی گولی سے جو شکار ہلاک ہوجائے وہ بھی حرام ہے اگرچہ بسم اللہ پڑھ کر گولی ماری گئی ہو ہاں اگر گولی لگنے کے بعد میں اتنی جان باقی ہے جس کا ذبح کے وقت ہونا شرط ہے اور بسم اللہ پڑھ کر ذبح کردیا جائے تو حلال ہوجائے گا۔ اَلْمُتَرَدِّیۃ ساتویں چیز جس کے حرام ہونے کی تصریح فرمائی وہ اَلْمُتَرَدِّیۃ ہے۔ یعنی وہ جانور جو کسی پہاڑ یا ٹیلہ یا کسی بھی اونچی جگہ سے گر کر مرجائے اس جانور کا کھانا بھی حرام ہے۔ النطیحہ آٹھویں چیز جس کے حرام ہونے کی تصریح فرمائی وہ النطیحۃ ہے یہ لفظ فعیلہ کے وزن پر ہے جو نطح ینطح سے ماخوذ ہے جو جانور کسی تصادم سے مرگیا مثلاً دو جانوروں میں لڑائی ہوئی ایک نے دوسرے کو مار دیا کسی جانور کو دیوار میں ٹکر لگی اس سے مرگیا۔ ریل گاڑی کی زد میں آکر مرگیا یا کسی گاڑی سے ایکسیڈنٹ ہوگیا جس سے موت واقع ہوگئی یہ سب نطیحہ کی صورتیں ہیں اگر ان سب صورتوں میں جانور کی موت واقع ہوجائے تو اس کا کھانا حرام ہوجاتا ہے۔ درندہ کا کھایا ہوا جانور نویں چیز جس کے حرام ہونے کی تصریح فرمائی وہ جانور ہے جس کو کوئی درندہ کھاجائے شیر بھیڑیئے نے کسی جانور کو پکڑ اور اس کو قتل کردیا تو اس کا کھانا حرام ہوگیا وہ بھی مردار ہے کیونکہ ذبح شرعی سے اس کو موت نہیں آئی۔ حرام چیزوں کی مذکورہ نو قسمیں بیان فرمانے کے بعد (اِلاَّ مَاذَکَّیْتُمْ ) فرمایا یہ استثناء منخنقہ، موقوذہ، متردیہ، نطیحہ اور ما اکل السبع سب سے متعلق ہے مطلب یہ ہے کہ جس جانور کا گلا گھٹ گیا یا اوپر سے گرپڑا یا کسی کے لاٹھی مارنے سے مرنے لگایا ٹکر لگنے سے مرنے لگایا کسی درندہ سے چھڑا لیا اور اس میں ابھی تک اتنی زندگی باقی ہے جو ذبح کے وقت ہوتی ہے تو یہ جانور ذبح شرعی کرنے کی وجہ سے حلال ہوجائے گا۔ حضرت زید بن ثابت ؓ نے بیان فرمایا کہ ایک بھیڑیئے نے ایک بکری کو اپنے دانت سے پکڑ لیا (پھر وہ کسی طرح سے چھوٹ گئی جسے) اس کے مالکوں نے دھار دار پتھر سے ذبح کردیا پھر آنحضرت سرور عالم ﷺ سے پوچھا تو آپ نے اس کے کھانے کی اجازت دیدی۔ (رواہ النسائی ص 20 ج 2) بتوں کے استھانوں پر ذبح کئے ہوئے جانور پھر فرمایا (وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ ) (اور جو نصب پر ذبح کیا جائے اس کا کھانا بھی حرام ہے) اصنام وہ مورتیاں جن کی اہل عرب عبادت کیا کرتے تھے، اور ان کے علاوہ جسن پر دوسرے پتھروں کی عبادت کرتے تھے ان کو نصب اور انصاب کہ جاتا تھا ان کو کہیں کھڑا کر کے عبادہ گاہ اور استہان بنالیتے تھے اگر مطلق کھڑی کی ہوئی چیز کے معنی لئے جائیں تو بت بھی نصب کے عموم میں داخل ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ بھی پتھر ہوتے ہیں اور ان کو مختلف جگہوں میں نصب کردیا جاتا ہے۔ اصنام و انصاب کے پاس جو کچھ ذبح کیا جاتا ہے چونکہ وہ ذبح لغیر اللہ ہے اس لئے وہ بھی مردار ہے اور اس کا کھانا حرام ہے۔ تیروں کے ذریعہ جوا کھیلنے کی حرمت پھر فرمایا (وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بالْاَزْلَامِ ) (اور یہ بھی حرام کیا گیا کہ تقسیم کرو تیروں کے ذریعہ) اہل عرب کا طریقہ تھا کہ تیروں کے ذریعے اونٹ کا گوشت تقسیم کیا کرتے تھے اور یہ ان کا ایک قسم کا قمار یعنی جوا تھا جس کا طریقہ یہ تھا کہ ایک اونٹ میں دس آدمی برابر کے شریک ہوتے تھے پھر اس اونٹ کو تیروں کے ذریعے تقسیم کرتے تھے یہ دس تیر ہوتے تھے سات تیروں پر حصے لکھے رہتے تھے اور تین تیرا ی سے ہوتے تھے جن کا کوئی حصہ مقرر نہ تھا۔ پھر ان دس تیروں کو کسی تھیلہ میں ڈالتے تھے اور شرکاء کے نام سے ایک ایک تیر نکالتے تھے جن تین تیروں کا کوئی حصہ مقرر نہ تھا جس کے نام پر ان تیروں میں سے کوئی نکل آتا تھا اسے کوئی حصہ نہ ملتا تھا حالانکہ اونٹ کی قیمت میں وہ بھی شریک تھا اس کا حصہ دوسروں کو مل جاتا تھا اور اس طرح سے یہ شخص جوئے میں ہار جاتا تھا اور دوسرے لوگ جیت جاتے تھے۔ پھر ان میں بعض لوگ جوئے میں جیتے ہوئے گوشت کے ان حصوں کو غربا، مساکین اور یتیموں پر خرچ کرتے تھے اور اس پر فخر کیا کرتے تھے۔ لبید بن ربیعہ ؓ کے قصیدہ میں ہے۔ (جو بعد میں مسلمان ہوگئے تھے) وجزور ایساردعوت لحتفھا بمغالق متشابہ اجسامھا باؤوا بھن لعاقراو مطفل بذلت لجیران الجمیع لحامھا علامہ حضرت قرطبی (رح) نے اپنی تفسیر میں ازلام کی تین قسمیں بتائی ہیں ان میں سے تیسری قسم بتاتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ھوا المیسر وھی عشرۃ۔ سبعۃ منھما حظوظ وثلثۃ اغفال وکانوا یضربون بھا مقامرۃ لھوا ولعباو کان عقلاءھم یقصدون بھا طعام المساکین والمعدم فی زمن الشتاء وکلب البرد و ثعدر المتحرف۔ اس کے بعد لکھتے ہیں وھو من اکل المال بالباطل وھو حرام و کل مقامرۃ بحمام اور بنرد او شطرنج او بغیر ذالک من ھذا الباب فھو استقسام بماھو فی معنی الازلام حرام کلہ یعنی اس طرح سے مال لے لینا باطل طریقے پر لینا ہے حرام ہے خواہ کبوتر اڑانے کے ذریعہ ہو خواہ نرد کے ذریعے ہو خواہ شطرنج کے ذریعے ہو خواہ کسی بھی کھیل کے ذریعہ ہو۔ (تفسیر القرطبی ص 59 جلد 6) سورۂ بقرہ میں فرمایا (یَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ قُلْ فِیْھِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ للنَّاسِ ) (وہ آپ سے سوال کرتے ہیں شراب اور جوئے کے بارے میں، آپ فرما دیجئے کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لئے منافع ہیں) سورة مائدہ میں فرمایا (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ) (اے ایمان والو ! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور انصاب اور ازلام سب گندی چیزیں ہیں شیطان کے کام ہیں سو تم اس سے بچ کر رہو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ ) شراب اور جوئے کے بارے میں تفصیلی احکام انشاء اللہ العزیز ہم سورة مائدہ کی اسی آیت (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ ) (الآیۃ) کے ذیل میں بیان کریں گے۔ یہاں بالا جمال یہ سمجھ لینا چاہئے کہ جوئے کی جتنی بھی قسمیں ہیں وہ سب حرام ہیں اور ان سے جو مال حاصل کرلیا ہو وہ بھی حرام ہے۔ استقسام بالازلام کا دوسرا معنی استقسام بالا زلام کی ایک تفسیر تو وہی ہے جو اوپر مذکور ہوئی یعنی تیروں کے ذریعے بطور جو امال تقسیم کرنا، اس تفسیر کے بارے میں صاحب روح المعانی لکھتے ہیں۔ (ص 69 ج 4) ورجح انہ یناسب ذکرہ مع محرمات الطعام۔ اور بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ تیروں کے ذریعے جو غیب کی خبریں معلوم کرتے تھے اس کی حرمت بیان فرمائی ہے۔ اہل عرب میں اس کا طریقہ یہ تھا کہ تین تیرا پنے پاس رکھتے تھے ان میں سے ایک پر لکھا ہوتا تھا۔ اَمَرَنِیْ رَبِّیْ (میرے رب نے مجھے حکم دیا) اور دوسرے تیر لکھا رہتا تھا (نَھَا نِیْ رَبِّیْ ) (میرے رب نے مجھے منع کیا) اور تیسرے تیر پر کچھ بھی لکھا ہوا نہ ہوتا تھا۔ جب کسی کام میں یا سفر میں جانے کا ارادہ کرتے تھے تو تھیلے میں تیروں کو گھما کر ایک تیر نکال لیتے تھے اگر پہلے نمبر کا تیر نکل آیا تو کام کر گزرتے تھے اور سفر پر چلے جاتے تھے اور دوسرا تیر نکل آتا تو اس کام کے کرنے اور سفر کرنے سے رک جاتے تھے اور تیسرا تیر نکل آیا جس پر کچھ بھی لکھا ہوا نہ ہوتا تھا تو پھر تینوں تیروں کو گھماتے تھے اور برابر گھماتے اور دیکھتے رہتے تھے یہاں تک کہ پہلے دو تیروں میں سے کوئی تیرنکل آئے اور کچھ تیر ایسے تھے جو ہبل بت کے پاس کعبے شریف کے اندر رکھے تھے وہاں کے مجاور کے پاس جاتے تھے اور اس سے کہتے تھے کہ تیروں کو گھمائے اور تھیلے میں سے نکالے اس سے آئندہ کہ حوادث اور نوازل معلوم کرتے تھے اور جس کسی کے نسب میں شک ہوتا تھا اس کے نسب کا فیصلہ بھی ان تیروں سے کروا لیتے تھے۔ (تفسیر قرطبی ج 6 ص 58) روح المعانی ج 6 ص 58 میں لکھا ہے کہ اس صورت کو استقسام بالازلام سے اس لئے تعبیر کیا گیا کہ گھر سے باہر جانے اور سفر کے لئے نکلنے میں طلب معاش کا مقصد سامنے ہوتا تھا اور تیروں سے یہ پوچھتے تھے کہ جو رزق میری قسمت میں ہے وہ اس وقت باہر جانے سے ملے گا یا نہیں۔ وقال القرطبی وانما قیل لھذا الفعل اسقسام لانھم کانوا یستقسمون الرزق وما یریدون کما یقال الاستسقاء فی الاستدعاء بالسقی 1 ھ کاہنوں کے پاس جانے کی ممانعت عرب میں زمانہ اسلام سے پہلے بہت پرستی تو تھی ہی کاہنوں کا بھی بہت زور تھا جو غیب کی خبریں بتایا کرتے تھے اور اس کے مختلف طریقے نکال رکھے تھے کچھ لوگ ستاروں کے ذریعے غیب کی خبریں بتاتے تھے (انہیں منجم کہا جاتا تھا) شریعت اسلامیہ نے سب کو باطل قرار دیدیا جو بھی کوئی غیب کی خبریں بتائے اس کے پاس جا کر آئندہ کی خبریں پوچھنا حرام ہے اور اس بارے میں جو کچھ مال لیا دیا جائے وہ بھی حرام ہے۔ ام المومنین حضرت حفصہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص عراف (غیب کی خبریں بتانے والے) کے پاس آیا اور اس سے کسی چیز کے بارے میں سوال کیا تو چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہ ہوگی۔ (رواہ مسلم ) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص کسی کاہن کے پاس آیا (جو غیب کی خبریں بتاتا ہے) اور اس کی بات کو سچا بتایا یا حیض کی حالت میں اپنی بیوی سے جماع کیا یا اپنی عورت کے پچھلے حصے میں اپنی حاجت پوری کی تو اس چیز سے بیزار ہوگیا جو محمد ﷺ پر نازل ہوئی۔ ( راوہ احمد وا بو داؤ، مشکوٰۃ المصابیح ص 393) حضرت قتادہ (تابعی) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان ستاروں کو تین چیزوں کے لئے پیدا فرمایا آسمان کی زینت بنایا ہے، شیاطین کے مارنے کا ذریعہ بنایا، راستہ دکھانے کے لئے علامتیں بنائیں، جس نے اس کے سوا اور کوئی کام تجویز کیا تو اس نے غلط بات کہی اور اپنا نصیب ضائع کیا اور جس چیز کو نہیں جانتا خواہ مخواہ اس کے جاننے کا دعویٰ کیا۔ ( رواہ البخاری تعلیقا ) غیب کی خبریں بتانے کے جتنے بھی طریقے جاری ہیں شرعاً ان پر اعتماد کرنا حرام ہے نجومی، رمل والے، جفر والے جو خبریں بتاتے ہیں ان کی تصدیق کرنا حرام ہے۔ بعض لوگ چڑیاں پال کر رکھتے ہیں چڑیا کے منہ میں دانے دے دیتے ہیں وہ بہت سے لفافوں میں سے ایک لفافہ کھینچ لیتی ہے وہ لفافہ پڑھ کر سناتے ہیں پوچھنے والا اس کوا پنا حال سمجھتا ہے اور اپنی آئندہ زندگی کے بارے میں یہ یقین کرتا ہے کہ اس کے مطابق ہوگا یہ بھی حرام ہے۔ اس طرح لوگوں کو جو مال لیا دیا جاتا ہے اس کا لینا دینا بھی حرام ہے۔ حضرت ابو مسعود انصاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کتے کی قیمت سے اور زناکاری کی اجرت سے اور غیب کی خبریں بتانے والے کو جو کچھ بطور منہ میٹھا کرنے کے دیا جاتا ہے اس سے منع فرمایا (رواہ مسلم ) ذَالِکُم فِسْقٌ فرمایا (ذَالِکُم فِسْقٌ) یہ جو چیزیں بیان ہوئیں ان کو خالق ومالک جل مجدہ نے حرام قرار دیا ہے اس کی خلاف ورزی فسق ہے یعنی فرماں برداری سے باہر نکل جانا ہے جو گناہ کبیرہ ہے۔ محرمات کی تصریح فرما کر اخیر میں تنبیہ فرما دی کہ ان کے ارتکاب کو معمولی نہ سمجھا جائے ان سب میں اللہ تعالیٰ شانہ کی نافرمانی ہے اور بڑی نافرمانی ہے۔ قال صاحب الروح فسق ای ذنب عظیم خروج عن طاعۃ اللّٰہ تعالیٰ الی معصیتہ ماَاُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ میں کیا کیا چیزیں داخل ہیں ہم نے چند صفحات پہلے لکھا ہے کہ اھلال کا معنی یہ ہے کہ ذبح کے وقت کسی کا نام پکار اجائے۔ اب سمجھنا چاہئے کہ جس جانور کا کھانا حلال ہو اللہ کا نام لے کر ذبح کیا جائے اور اس کا ذبح کرنے والامسلم غیر محرم ہو یا کتابی ہو اور اسکے ذبح کرنے سے تقرب الی غیر اللہ مقصود نہ ہو تو اس کا کھانا حلال ہے۔ اور جو جانور حلال ہو لیکن اس پر ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام لیا جائے وہ حرام ہے خواہ کوئی مدعی اسلام ذبح کرے خواہ کوئی دوسرا شخص ذبح کرنے والا ہو۔ اور خواہ اس پر کسی بت کا نام لیا جائے یا کسی نبی یا ولی یا پیر فقیر کا اور اس کی حرمت نص صریح سے ثابت ہے اور باجماع الامتہ حرام ہے اور یہ جانور میتہ کے حکم میں ہے۔ اور ایک صورت میں یہ ہے کہ کسی جانور کو تقرُّب الی غیر اللّٰہ کے لئے ذبح کیا جائے یعنی اس کا خون بہانے سے غیر اللہ کی خوشنودی مقصود ہو اور بوقت ذبح اس پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا جائے جیسا کہ قبروں پر اس طرح کے ذبیحے ہوتے ہیں۔ اس صورت میں بھی وہ جانور حرام ہے اور مذبوحہ میتہ کے حکم میں ہے اس کی حرمت کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ یہ (ما ذُبِحَ عَلَی النُّصُب) کے عموم میں داخل ہوجاتا ہے اور دوسرے اشتراک یعنی تقرب الی غیر اللہ کی وجہ سے ما اھل لغیراللّٰہ بہکے ساتھ ملحق ہے۔ درمختار میں ہے ذبح لقدوم الا میر ونحوہ کو احدمن العظام یجرم لانہ اھل بہ لغیر اللّٰہ ولو ذکر اسم اللّٰہ (درمختار ص 196 ج 5 برحامش شامی ) قبروں پر جو چیزیں لے جاتے ہیں ان کا حکم اب رہی وہ مٹھائی اور دوسری چیزیں جو لوگ قبروں یا تعزیوں پر چڑھاتے ہیں اور اس کی نذریں مانتے ہیں۔ سو یہ (ما اھلّ بہ لغیر اللّٰہ) کے مفہوم صریح میں داخل نہیں لیکن چونکہ قبروں پر یہ چیزیں لے جانے والوں کا مقصد صرف فقراء کو بانٹنا نہیں ہوتا بلکہ اول صاحب قبریا تعزیہ کی خوشنودی کے لئے نذریں مانتے ہیں پھر یہ چیزیں وہاں لے جاتے ہیں اس لیے ان کا لینا اور کھانا مجاوروں اور سجادہ نشینوں کو اور ان کے مہمانوں کو اور ہر مسلمان کے لئے حرام ہے۔ صاحب درمختار قبیل باب الاعتکاف تحریر فرماتے ہیں۔ اعلم ان النذر الذی یقع للاموات من اکثر العوام وما یؤخذمن الدراھم والشمع والزیت ونحوھا الی ضرائح الاولیاء الکرام تقربا الیھم فھو بالاجماع باطل و حرام مالم یقصد و اصرفھا لفقراء الانام وقد ابتلی الناس بذلک ولا سیما فی ھذہ الاعصار انتھی۔ قال الشامی فی حاشیتہ قولہ مالم یقصد وا الخ ای بان تکون صیغہ النذر للّٰہ تعالیٰ للتقرب الیہ ویکون ذکرالشیخ مرادا بہ فقراءہ کمامر۔ صاحب بحر الرائق تحریر فرماتے ہیں وقدقدمنا ان المنذر لایصح بالمعصیۃ للحدیث لانذر فی معصیۃ اللّٰہ تعالیٰ فقال الشیخ قاسم فی شرح الدر واما النذر الذی ینذرہ اکثر العوام علی ماھو مشاھد کان یکون الانسان غائب اور مریض اولہ حاجۃ ضروریۃ قیأتی بعض الصلحاء فیجعل سترہ علی رأسہ فیوقل یا سیدی فلان ان رد غائبی اور عوفی مریضی او قضیت حاجتی فلک من الذھب کذا اومن الفضۃ کذا اومن الطعام کذا اومن الماء کذا اومن لشمع کذا او من الزیت کذا فھذا النذر باطل بالا جماع لوجوہ منھا انہ نذر مخلوق والنذر للمخلوق لا یجوز لانہ عبادۃ والعبادۃ لاتکون للمخلوق ومنھا ان المنذورلہ میت والمیت لا یملک ومنھا انہ ان ظن ان المیت یتصرف فی الامور دون اللّٰہ تعالیٰ و اعتقادہ ذلک کفر اللّٰھم الا ان قال یا اللّٰہ انی نذرت لک ان شفیت مریضی اور ردت غائبی او قضیت حاجتی ان اطعم الفقراء الذین بباب الامام الشافعی اوالامام اللیث اواشتری حصیر المساجد ھم اور زیتالو قودھا اودراھم لمن یقوم بشعائر ھا الٰی غیر ذالک ممایکون فیہ نفع للفقراء والنذر للّٰہ عزوجل (الٰی ان قال) ولا یجوز لخادم الشیخ اخذہ ولا اکلہ ولا التصرف فیہ بوجہ من الوجوہ الا ان یکون فقیر اولہ عیال فقراء عاجزون عن الکسب وھم مضطرون فیاخذونہ علی سبیل الصدقۃ المبتدأۃ فأخذہ ایضا مکروہ مالم یقصد بہ الناذر التقرب الی اللّٰہ تعالیٰ وصرفہ الی الفقراء ویقطع النظر عن نذر الشیخ فاذا علمت ھذا فمایوخذ من الدراھم والشمع والزیت وغیرھا وینقل الیٰ ضرائح الاولیاء تقربا الیھم فحرام باجماع المسلمین مالم یقصد وابصرفھا للفقراء الاحیاء قولہ واحدا 1 ھ۔ نذر لغیر اللہ حرام اور کفر ہے درمختار اور البحر الرائق کی مذکورہ بالا عبارت سے معلوم ہوا کہ نذر لغیر اللہ حرام ہے کیونکہ نذر عبادت ہے اور عبادت صرف اللہ ہی کے لئے ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اموات کے جو نذرمانی جاتی ہے اس نذر کی وجہ سے عوام الناس روپیہ پیسہ موم بتی تیل وغیرہ جو اولیاء اللہ کی قبروں کے پاس لے جاتے ہیں تاکہ قبروں پر چڑھائیں اور قبر والوں کا تقرب حاصل کریں یہ مٹھائی بھی حرام ہے اس مٹھائی کا لینا اور کھانا اسی طرح سے نقدی اور تیل وغیرہ اور وہ چادر جو قبروں پر چڑھائی جاتی ہیں ان سب کا لینا اور خرچ کرنا اور کھانا کھلانا سب حرام ہیں جس میں قبروں کے خدام سجادہ نشین اور ان کے پاس قیام کرنے والے اور آنے جانے والے مہمان سب مبتلا ہیں ہاں اگر کسی نے یوں نذر مانی کہ اے اللہ ! میر فلاں کام ہوجائے تو فلاں بزرگ کے پاس جو فقرا ہوں ان کو اتنے پیسے دوں گا یا فلاں مسجد میں تیل دوں گا اور اس نذر کے مطابق عمل کرلیا تو ان چیزوں کا خرچ کرنا اور لینا جائز ہے لیکن مالداروں کو ان کا لینا اور خرچ کرنا پھر بھی حلال نہ ہوگا۔ نذر لغیر اللہ کی صورت میں جو چیزیں قبروں پر لے کر گئے پھر اس سے توبہ کرلی اور اس مال کو فقراء پر خرچ کرلیا تو فقراء کو اس کا لینا جائز ہوگا۔ نذر لغیر اللہ کفر ہے کیونکہ نذر عبادت ہے اور عبادت اللہ ہی کے لئے مخصوص ہے نیز یہ عقیدہ رکھنا کہ اموات اپنی قبروں تصرف کرتے ہیں اور اس تصرف میں مختار ہیں اور بغیر اذن اللہ تصرف کرتے ہیں یہ بھی کفر ہے اور جو جانور غیر اللہ کے تقرب کے لئے ذبح کیا جائے اگرچہ ذبح کے وقت اللہ کا نام لیاجائے وہ بھی حرام ہے چونکہ اس کے ذبح سے تقرب لغیر اللہ مقصود ہے اس لئے یہ بھی کفر ہے ہاں ! اگر کوئی جانور مہمانوں کے کھلانے کے لئے ذبح کیا جائے اور خون بہانے سے تقرب الی غیر اللہ مقصود نہ ہو تو وہ حلال ہے جیسے ولیمہ اور عقیقہ میں ذبح کیا جاتا ہے۔ کافروں کی ناامیدی اور دین اسلام کا کمال یہ بھی آیت بالا کا ایک حصہ ہے۔ میتہ وغیرہ کی حرمت بیان فرمانے کے بعد بطور جملہ معترضہ ارشاد فرمایا کہ آج کافر تمہارے دین کی طرف سے ناامید ہوگئے سو ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو اور میں نے اپنی نعمت تم پر پوری کردی اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا، اس کے بعد پھر مضمون متعلقہ حیوانات بیان فرمایا اور بھوک کی مجبوری میں ان میں سے کچھ کھانے کی اجازت فرما دی۔ آیت بالا حجۃ الوداع کے موقعہ پر عرفہ کے دن عرفات میں نازل ہوئی رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ ؓ جن کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی اس وقت عرفات میں موجود تھے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں مسلمانوں کا اتنا بڑا اجتماع کبھی نہیں ہوا یہ ذوالحجہ 10 ھ کا واقعہ ہے۔ حج کا احرام، میدان عرفات، جبل رحمت کا قرب جمعہ کا دن ایسے متبرک زمان، مکان اور حال میں اس آیت کا نزول ہوا۔ مکہ معظمہ 8 ھ میں فتح ہوچکا تھا اور سارا عرب مسلمان ہوگیا تھا جو لوگ اس انتظار میں تھے کہ سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ اور اہل مکہ کی مخالفت کا کیا انجام ہوتا ہے اسے دیکھ کر اپنے بارے میں فیصلہ کریں گے یہ لوگ بھی فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوگئے مختلف قبائل جزیرۃ العرب کے اطراف و کناف سے وفود کی صورت میں آتے رہے اور مسلمان ہوتے رہے۔ یہ وفود اپنی قوموں کے نمائندہ بن کر آتے تھے اور پھر اسلام کے نمائند بن کر جاتے تھے۔ جزیرہ عرب میں جو اہل شرک اور اہل کفر کی مخالفت تھی وہ بھی ختم ہوگئی۔ کافروں نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ دین اسلام کو دبا دیں گے۔ صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے جس کے لئے انہوں نے جنگیں بھی لڑیں اور بہت سی تدبیریں کیں جزیرۃ العرب سے باہر دوسرے لوگوں سے بھی مدد لینے کا پروگرام بنایا۔ الحمد للہ ان کے یہ ارادے خاک میں مل گئے اور ساری تدبیریں ملیا میٹ ہوگئیں اور اب وہ اس سے ناامید ہوگئے کہ دین اسلام کو ختم کریں۔ اللہ جل شانہٗ نے فرمایا (اَلْیَوْمَ یَءِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ ) کہ آج اب انہیں یہ خیال نہیں رہا کہ کہ تمہارے دین پر غالب ہوں کیونکہ اللہ کا جو وعدہ تھا کہ دین اسلام کو غالب کرے گا وہ اس نے پورا فرما دیا اور کافروں نے اس کا مشاہدہ کرلیا۔ اب جبکہ اللہ تعالیٰ شانہ نے غلبہ عطا فرما دیا تو کافروں سے جو ظاہر ڈر تھا وہ بھی ختم ہوا اب تو بس ظاہر اً اور باطناً اللہ ہی سے ڈرنا ہے اسی کی فرمانبرداری کرو اور اس کی نافرمانی سے بچو، اس کو فرمایا (فَلاَ تَخْشُوْھُمْ وَ اخْشَوْنِ ) (پس تم ان سے نہ ڈرو مجھ سے ڈرو) دین اسلام کا کامل ہونا اس کے بعد فرمایا (اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنکُمْ ) کہ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین پورا کردیا۔ حضرت آدم ( علیہ السلام) سے لے کر سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ تک جو انبیاء و رسل ( علیہ السلام) تشریف لائے اور جو اللہ تعالیٰ نے کتابیں اور صحیفے نازل فرمائے ان میں جو احکام اور مسائل نازل ہوتے رہے آج ان سب کی تکمیل کردی گئی۔ احکام کی بھی تکمیل ہوگی اور اخلاق کی بھی، رسول اللہ ﷺ نے اپنی بعثت کا مقصد بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا اِنّ اللّٰہَ بعثنی لتمام مکارم الاخلاق و کمال محاسن الافعال (اللہ نے مجھے برگزیدہ اخلاق اور اچھے افعال کی تکمیل کے لیے بھیجا ہے) ۔ (رواہ فی شرح السنتہ کما فی المشکوٰۃ ص 514) اس سے پہلے جو احکام نازل ہوئے ان میں سے بعض منسوخ بھی ہوئے جن کے عوض ان سے بہتر یا انہیں جیسے احکام نازل فرما دیئے گئے اب دین کامل ہے کوئی حکم اب منسوخ نہ ہوگا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ یہ (نزول احکام کے اعتبار سے) قرآن مجید کی آخری آیت ہے اس کے بعد کوئی آیت احکام نازل نہیں ہوئی چند آیات اس کے بعد نازل ہوئیں وہ ترغیب و ترہیب کے متعلق تھیں اس پر بعض مفسرین نے آیت کلالہ سے متعلق اشکال پیش کیا ہے کہ بعض حضرات نے اسے آخری آیت بتایا ہے لیکن اگر اسے آخری آیت بحیثیت احکام مان لیا جائے تب بھی اس اعتبار سے اشکال ختم ہوجاتا ہے کہ اس میں نسخ واقع نہیں ہوا۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔ اسلام انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے دین اسلام انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے اجتماعی اور انفرادی اعمال و احوال سب کے بارے میں احکام موجود ہیں۔ آپس میں ایک دوسرے کے حقوق کیا کیا ہیں عزیز و قریب آپس میں مل کر کس طرح رہیں۔ میاں بیوی دونوں مل کر کس طرح زندگی گزاریں، اولاد کی پرورش کن اصولوں پر اور کس طرح کی جائے۔ پڑوسی کے ساتھ کیسے برتاؤ ہو۔ مہمان اور میزبان کس طرح ایک دوسرے کا خیال رکھیں دشمنوں سے صلح اور جنگ کیسے ہو، معاہدہ کس طرح ہو، مردوں اور عورتوں کا لباس کیساہو، کھانے پینے اور پہننے میں کن امور کی رعایت رکھی جائے۔ بیع و شرا کے احکام، رہن اور اجارہ کے احکام اور ان کی تفصیلات۔ حدودو قصاص جاری کرنے کے احکام، خلیفہ اور امیر کی ذمہ داریاں۔ عوام الناس کا امراء اور خلفاء کے ساتھ سلوک اور اسی طرح سینکڑوں عنوانات کے جوابات شریعت اسلامیہ میں موجود ہیں۔ اسلام صرف عبادات کا مجموعہ ہی نہیں اعتقادیات، عبادات و معاملات، اخلاق و آداب یہ سب اسلام میں موجود ہیں۔ اسلام کے علاوہ کوئی بھی دین ایسا نہیں ہے جو انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہو۔ بجز چند تصورات اور خیالات کے دوسرے ادیان میں کچھ بھی نہیں۔ اگر اسلام میں کسی آنکھیں بند کرنے والے کو کچھ بھی نظر نہ آئے تو یہ دین کا جامع اور کامل ہونا ہی ایک منصف مزاج سمجھدار انسان کے لئے اسلام کے دین حق ہونے کی دلیل کے طور پر کافی ہے۔ اس اعتبار سے انبیاء سابقین ( علیہ السلام) کا دین بھی کامل تھا کہ اس کو اختیار کرنے پر ان کے اپنے اپنے زمانے میں آخرت کی نجات کا مدار تھا اور اس کو اختیار کرنا اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کافی تھا۔ سیدنا محمد ﷺ جو دین لائے وہ تمام انسانوں تمام جہانوں اور آئندہ آنے والے تمام زمانوں کے لئے ہے اور اللہ تعالیٰ کا آخری دین ہے اور کوئی دین اس کے بعد آنے والا نہیں جو اس کو منسوخ کردے اور انسانی زندگی کے تمام شعبوں کے احکام پر حاوی ہے۔ دنیا کتنی بھی ترقی کر جائے اور کیسے ہی حوادث و نوازل کا ظہور ہوجائے ان سب کا حکم شرعی موجود ہے اور مدار نجات تو بہر حال ہے ہی، ان سب وجوہ سے اس کو کامل فرمایا۔ اتمام نعمت پھر فرمایا (وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ ) (اور پوری کردی میں نے تم پر اپنی نعمت) صاحب روح المعانی ج 6 ص 60 لکھتے ہیں کہ مخاطبین پر نعمت کو پورا فرمانا اس طرح ہوا کہ ان کے لئے مکہ معظمہ فتح ہوا اور وہ مکہ معظمہ میں امن وامان کے ساتھ غلبہ اسلام کے ساتھ داخل ہوئے اور جاہلیت کی چیزیں ختم کردی گئیں اور مشرکیں کو حج کرنے سے روک دیا گیا۔ اتمام نعمت کی تفسیر میں دیگر اقوال بھی ہیں مثلاً یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت پوری فرما دی اور اس کے اسباب مکمل فرما دیئے اور بعض حضرت نے فرمایا اتمام نعمت سے اکمال دین ہی مراد ہے (گویا پہلے جملے کی تاکید ہے) اور بعض حضرات نے فرمایا کہ امت محمد علی صاجہا الصلوۃ والتحیہ کو جو علم و حکمت سے نوازا وہ اور کسی کو عطا نہیں فرمایا اتمام نعمت سے وہ مراد ہے۔ صاحب معالم التنزیل اس کی تفسیر کرتے ہوئے بعض حضرات سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے وہ وعدہ پورا فرما دیا جو (وَ لِاُتِمَّ نِعْمَتِیْ عَلَیْکُمْ ) میں فرمایا تھا۔ دین اسلام ہی اللہ تعالیٰ کے یہاں معتبر ہے پھر فرمایا (وَ رَ ضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دَیْنًا) اور میں نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کرلیا۔ دن اسلام ہی امن وامان اور آخرت کی نجات کا ضامن ہے جس کا دین اسلام نہ ہوگا وہ اصحاب نار میں سے ہوگا یعنی اس کے لئے ہمیشہ ہمیش دوزخ ہی ہے۔ اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا دین اللہ تعالیٰ کے یہاں معتبر نہیں کوئی کیسی ہی عبادتیں اور ریاضتیں کرے تارک دنیا ہو، راہب ہو دوزخی ہی ہوگا اگر دین اسلام قبول کئے بغیر مرگیا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ (قیامت کے دن اعمال آئیں گے) نماز آئے گی وہ کہے گی کہ اے رب ! میں نماز ہوں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوگا تو خیر پر ہے پھر صدقہ آئے گا وہ عرض کرے گا اے رب ! میں صدقہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوگا تو خیر پر ہے۔ روزے آئیں گے وہ کہیں گے کہ اے رب ! ہم صیام ہیں اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تو خیر پر ہے۔ پھر دوسرے اعمال اسی طرح آتے رہیں گے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوگا تم خیر پر ہو پھر اسلام آئے گا وہ عرض کرے گا اے رب ! آپ سلام ہیں میں اسلام ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشا ہوگا کہ تو خیر پر ہے۔ تیری ہی وجہ سے میں آج مواخذہ کروں گا ( جس نے تجھے قبول نہ کیا تھا وہ خیر سے محروم ہوگا اور عذاب میں جائے گا) اور تیری وجہ سے عطا کروں گا (آج جو انعامات ملنے ہیں تیری وجہ سے ملیں گے ) اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا (وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَ ھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ) اور جو کوئی شخص اسلام کے علاوہ کسی دین کا طلب گار ہوگا۔ تو اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں تباہ کاروں میں سے ہوگا۔ خلاصہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ علی صجاہ الصلوۃ والتحیہ کو تین خصوصی انعام عطا فرمائے (1) کمال دین (2) اتمام نعمت (3) نعمت اسلام۔ جس سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں اور جس کے بغیر کسی کے لئے آخرت میں کسی نعمت کا کوئی حصہ نہیں۔ امت محمدیہ افضل الامم ہے اس کا نبی ﷺ افضل الانبیاء ہے اس کے پاس کتاب افضل الکتب ہے۔ اس کا دین اکمل الادیان ہے، جو رہتی دنیا تک کے لئے ہے اس میں جامعیت ہے اور نسخ تبدیل نہیں ہے حضرت عمر ؓ سے ایک یہودی نے کہا کہ اے امیر المومنین ! تمہاری کتاب میں یہ آیت ہے جسے تم پڑھتے ہو اگر ہم پر یعنی یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید منا لیتے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا وہ کونسی آیت ہے اس شخص نے کہا کہ آیت یہ ہے (اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلاَمَ دیْنًا) حضرت عمر ؓ نے اس کے جواب میں فرمایا ہمیں معلوم ہے وہ دن اور وہ جگہ جس میں یہ آیت نبی اکرم ﷺ پر نازل ہوئی آپ عرفات میں وقوف کئے ہوئے تھے (اور) جمعہ کا دن تھا (صحیح بخاری ص 11 ج 1) فتح الباری ج 1 ص 105 میں طبرانی سے نقل کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا نزلت یوم جمعتہ و یوم عرفتہ وکلا ھما باللہ لنا عید (کہ یہ آیت جمعہ کے دن عرفہ کے روز نازل ہوئی اور الحمد للہ یہ دونوں ہمارے لئے عید ہیں ) ۔ سنن ترمزی میں بھی یہ واقعہ مروی ہے اور اس کے بعد دوسرا واقعہ لکھا اور وہ یہ کہ حضرت ابن عباس ؓ نے یہ آیت پڑھی تو ایک یہودی نے کہا کہ اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید منا لیتے جس دن کا اس کا نزول ہوتا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ یہ آیت ایسے دن نازل ہوئی جس دن میں ہمارے لئے دو عیدیں ہیں یہ یوم جمعہ تھا اور یوم عرفہ تھا۔ (قال الترمذی حدیث حَسَنٌ) حضرت عمر ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں کوئی نئی عید منانے کی ضرورت نہیں جس دین یہ آیت نازل ہوئی وہ ہمارے لئے پہلے ہی عید کا دن تھا۔ ایک نہیں اس ہماری دو عیدیں تھیں ان میں سے ایک عید تو ہر ہفتہ کو ہوتی ہے یعنی جمعہ کے دن اور دوسری عید ہر سال حج کے موقعہ پر حجاج کرام کو نصیب ہوتی ہے۔ ہماری عید میں لعب و لہو نہیں ہے یہ ہماری عیداللہ کی فرمانبرداری اور اطاعت اور اس کے ذکر کے مشغولیت ہے چناچہ ہم ہمیشہ وہ عید مناتے ہیں جو ہمارے لئے رب العزت ذوالجلال کی طرف سے مقرر کی گئی ہے۔ حضرت عمر ؓ کی فراست جب آیت بالا نازل ہوئی تو حضرت عمر ؓ رونے لگے اور انہوں نے اس آیت سے یہ سمجھا کہ اب نبی اکرم ﷺ اس دنیا میں تشریف نہیں رکھیں گے چونکہ جس مقصد کے لئے آپ کو مبعوث فرمایا تھا وہ پورا ہوگیا۔ حقیقت میں انہوں نے ٹھیک سمجھا اور نزول آیت کے اکیاسی دن بعد آنحضرت ﷺ کی وفات ہوگئی۔ (من روح المعانی و معالم التنزیل ) مجبوری میں حرام چیز کھانا آخر میں فرمایا (فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَۃٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمِ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ) (سو جو شخص مجبور ہوجائے سخت بھوک میں جو گناہ کی طرف مائل ہونے والا نہ ہو۔ سو یقیناً اللہ غفور رحیم ہے) اوپر جو حرام جانور کی تفصیل مذکور ہوئی ان کے بارے میں اب یہاں ارشاد ہے کہ جو شخص بھوک سے ایسا مجبور ہو کہ جان پر بن رہی ہو اور اس کے پاس حلال چیزوں میں کھانے کے لئے کچھ بھی نہ ہو تو وہ حرام چیزوں میں اپنی جان بچانے کے لئے اتنا سا کھالے جس سے جان بچ جائے اور صرف اتناہی کھا سکتا ہے جس سے جان بچ جائے۔ مجبوری کو گناہ گاری کا ذریعہ نہ بنائے یعنی اس سے زیادہ نہ کھائے جتنی کہ اس وقت حاجت ہے اس کو یہاں (غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِ ثْمٍ ) سے تعبیر فرمایا اور سورة بقرہ (ع 21) اور سورة نحل (ع 15) میں (غَیْرَ بَاغٍ وَّ لاَ عَادٍ ) سے تعبیر فرمایا کہ حد سے آگے بڑھنے والا نہ ہو اور لذت کا طالب نہ ہو۔ مثلاً اگر بھوک سے جان جا رہی ہو تو شراب اور سور کھالے اور حرام گوشت کھانے کی اجازت کو بہانہ بنا کر جان بچانے والی ضروری مقدار سے زیادہ کھائے گا تو گناہ گار ہوگا۔ آخر میں جو یہ فرمایا (فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ) اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ جان بچانے کے لئے جو تھوڑا سا کھانے کی اجازت ہے وہ درجہ معافی میں ہے اللہ تعالیٰ اس کو معاف فرما دے گا یوں کہیں گے کہ اس موقہ پر ذرا سا کھانا حلال ہوگیا البتہ حرام اپنی جگہ ہی ہے اس کے بارے میں مزید تنبیہ اور توضیح سورة بقرہ کی آیت (فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لاَ عَادٍ ) کے ذیل میں گزر چکی ہے۔
Top