Anwar-ul-Bayan - Al-Hashr : 10
وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ۠   ۧ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ جَآءُوْ : وہ آئے مِنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں رَبَّنَا : اے ہمارے رب اغْفِرْ لَنَا : ہمیں بخشدے وَلِاِخْوَانِنَا : اور ہمارے بھائیوں کو الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے سَبَقُوْنَا : ہم سے سبقت کی بِالْاِيْمَانِ : ایمان میں وَلَا تَجْعَلْ : اور نہ ہونے دے فِيْ قُلُوْبِنَا : ہمارے دلوں میں غِلًّا : کوئی کینہ لِّلَّذِيْنَ : ان لوگوں کیلئے جو اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائے رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اِنَّكَ : بیشک تو رَءُوْفٌ : شفقت کرنیوالا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
اور ان لوگوں کے لئے ہیں جو ان کے بعد آئے وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب بخش دے ہم کو اور ان لوگوں کو جو ہمارے بھائی ایمان کیساتھ ہم سے پہلے گزر گئے اور مت کر دے ہمارے دلوں میں کوئی کھوٹ ایمان والوں کے لئے اے ہمارے رب بیشک آپ رؤف ہیں رحیم ہیں۔
مہاجرین و انصار کے بعد آنے والے مسلمانوں کا بھی اموال فئی میں استحقاق ہے اكثر علماء کے نزدیک یہ بھی المہاجرین پر معطوف ہے اور اس میں بعد میں آنیوالے حضرات کا اموال فئی میں حصہ بتایا ہے اور مقصد یہ ہے کہ مہاجرین وانصار کے بعد دیگر مسلمان جو قیامت تک آئیں گے ان سب پر مال فئی میں سے خرچ کیا جائے۔ مفسرابن کثیر نے تفسیر ابن جریر سے نقل کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے آیت شریفہ ﴿ اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِيْنِ ﴾ کی آخر تک تلاوت کی، پھر فرمایا کہ یہ صدقات ان لوگوں کے لئے ہیں (جن کا آیت میں ذکر ہوا) اس کے بعد آپ نے آیت کریمہ ﴿ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ ﴾ آخر تک تلاوت کی پھر فرمایا کہ اموال غنیمت ان لوگوں کے لئے ہیں جو اس آیت میں مذکور ہیں پھر آپ نے ﴿ مَاۤ اَفَآء اللّٰهُ عَلٰى رَسُوْلِهٖ ﴾ سے ﴿ وَ الَّذِيْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ ﴾ تک تلاوت کی اور یوں فرمایا کہ یہ آیات تمام مسلمین کو شامل ہیں جو بھی کوئی مسلمان ہوگا اموالِ فئی میں اس کا حق ہوگا پھر فرمایا اگر میں زندہ رہ گیا تو ایک بکریاں چرانے والا جو سردحمیر (ایک قبیلہ کا نام جو مدینہ منورہ سے دور رہتا تھا) میں چرا رہا ہوگا اپنے حصہ کو وہیں پالے گا، اس کے حاصل کرنے میں اس کی پیشانی میں پسینہ تک نہ آیا ہوگا۔ (ابن کثیر صفحہ 340: ج 4) مفسر ابن کثیر ؓ نے آیت بالا کی تفسیر کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ : ھولاء ھم الثالث ممن یستحق فقراء ھم من مال الفیٔ وھم المھاجرون ثم الانصار۔ یعنی اموال فئی کے مستحقین کی یہ آخری قسم ہے تینوں قسموں میں سے ان میں سے جو فقراء ہوں گے مال فئی کے مستحق ہوں ہوا کہ اموال فئی میں روافض کا بالکل حصہ نہیں جو حضرات مہاجرین و انصار کا اتباع تو کیا کرتے ان سے بغض رکھتے ہیں اور انہیں کافر کہتے ہیں۔ وسیجیئی من قول الامام مالک انشاء اللہ تعالیٰ ۔ یہ تو اموال فئی کے مستحقین کا بیان ہوا آیت کریمہ میں بعد میں آنے والے مومنین کی دو دعاؤں کا بھی تذکرہ فرما دیا ہے۔ پہلی دعاء یہ ہے کہ وہ بارگاہ الٰہی میں یوں عرض کرتے ہیں کہ ” اے ہمارے رب ہماری بھی معفرت فرما دے اور جو ہمارے بھائی ہم سے پہلے باایمان گزر گئے ان کی بھی مغفرت فرمادے۔ “ معلوم ہوا کہ اپنے لئے مغفرت کی دعا کرنے کے ساتھ ان مسلمان بھائیوں کے لئے بھی دعاء مغفرت کرنا چاہئے جو اس دنیا سے گزر گئے دعاء مغفرت سے مغفرت کا بھی فائدہ ہوتا ہے اور رفع درجات کا بھی۔ دوسری دعاء یہ ہے کہ ” اے اللہ ہمارے دلوں میں ایمان والوں کے لئے کوئی کھوٹ پیدا نہ فرما “ ، لفظ غل جس کا ترجمہ کھوٹ کیا گیا ہے بہت عام ہے کینہ، بعض، حسد، جلن یہ لفظ ان سب باتوں کو شامل ہے اس میں ﴿اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ فرمایا ہے یعنی جو بھی اہل ایمان گزر گئے دنیا سے جا چکے اور جو موجود ہیں اور جو آئندہ آئیں گے اللہ تعالیٰ ان سب کی طرف ہمارے دلوں کو صاف اور پاک رکھے کسی سے کینہ نہ ہو اور نہ کسی کی طرف سے دل میں برائی لائی جائے۔ حسد، بغض، کینہ اور دشمنی کی مذمت حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آپس کے بگاڑ سے بچو، کیونکہ یہ مونڈ دینے والی چیز ہے۔ (رواہ الترمذی) اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ پرانی امتوں کا مرض چپکے چپکے تمہاری طرف چل کر آگیا ہے وہ مرض حسد اور بغض ہے یہ مونڈ دینے والی صفت ہے میں یہ نہیں کہتا کہ یہ بالوں کو مونڈ دیتی ہیں بلکہ یہ دین کو مونڈ دیتی ہیں۔ (رواہ الترمذی) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ پیر اور جمعرات کے دن جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں پھر ہر اس شخص کے بارے میں جس کے دل میں مسلمان بھائی سے دشمنی ہو (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) فرمان ہوتا ہے کہ ان دونوں کو چھوڑ دو یہاں تک کہ آپس میں صلح کرلیں۔ (رواہ الترمذی) یہ سب روایات مشکوۃ المصابیح صفحہ 428 پر مذکور ہیں) رسول اللہ ﷺ نے یہ جو فرمایا کہ پرانی امتوں کا مرض تمہارے اندر چل کر آگیا ہے یہ اس زمانہ میں تھوڑا ہی سا تھا۔ لیکن اب تو اسلام کا دعویٰ کرنے والوں میں لڑائیاں بھی ہیں بغض بھی ہے ایک دوسرے کی مخالفت بھی ہے، مار کاٹ بھی ہے اور قتل و قتال بھی، ان حالات میں سچے دل سے کیا دعاء نکل سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں اہل ایمان کی طرف سے کوئی کھوٹ نہ ہو، دلوں میں کھوٹ بھرا ہوا ہے اور اسے نکالنا بھی نہیں چاہتے۔ جب جمع ہوں گے غیبتیں کریں گے، تہمتیں دھریں گے مسلمانوں کے عیب اچھالیں گے ان حالات میں سینہ کیسے صاف رہ سکتا ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کوئی شخص میرے صحابہ ؓ سے متعلق کوئی بات مجھے نہ پہنچائے (جس سے دل برا ہو) کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ (اپنے گھر سے) ان کی طرف اس حال میں نکل کر آؤں کہ میرا سینہ باسلامت ہو۔ (رواہ الترمذی عن عبداللہ بن فضل، ازواج النبی ﷺ روافض کی گمراہی : اللہ تعالیٰ شانہ نے حضرات مہاجرین و انصار کے لئے دعا کرنے والوں کے مدح فرمائی لیکن روافض کا یہ حال ہے جو قرآن کریم کو اللہ نازل کی ہوئی کتاب مانتے ہی نہیں بلکہ یوں کہتے ہیں کہ وہ امام مہدی کے پاس ہے جو غار میں چھپے ہوئے ہیں حضرات صحابہ کرام ؓ کے بغض سے ان کے سینے بھرے ہوئے ہیں اپنے ایمان کی تو فکر نہیں اور تین چار کے علاوہ باقی صحابہ کو کافر کہتے ہیں ان کے دلوں میں حضرات صحابہ سے بھی بغض ہے اور ان کے طریقہ پر چلنے والوں سے بھی۔ تفسیر ابن کثیر (ج 4: ص 339) میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صحابہ کے لئے استغفار کرنے کا حکم دیا گیا لیکن لوگوں نے انہیں برا کہنا شروع کردیا پھر انہوں نے آیت کریمہ ﴿ وَ الَّذِيْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ ﴾ آخر تک تلاوت فرمائی۔ حضرت عامر شعبی ؓ نے مالک بن مغفل (رح) سے فرمایا کہ ایک بات میں یہود روافض سے بڑھ گئے جب یہودیوں سے پوچھا گیا کہ تم میں سب سے بڑھ کر کون لوگ ہیں تو انہوں نے کہا حضرت موسیٰ کے اصحاب ہم میں سب سے بہتر ہیں اور نصاریٰ سے پوچھا گیا کہ تم میں سب سے بہتر کون لوگ ہیں تو انہوں نے کہا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواری سب سے بہتر ہیں، جب روافض سے پوچھا گیا کہ تمہارے دین میں سب سے برے لوگ کون ہیں تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ سب سے برے ہیں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لئے استغفار کرنے کا حکم ہے اور وہ انہیں برا کہتے ہیں۔ (معالم التنزیل صفحہ 321: ج 4) مفسر ابن کثیر فرماتے ہیں کہ حضرت امام مالک (رح) نے اس آیت کریمہ سے کیسا اچھا استنباط کیا انہوں نے فرمایا کہ کسی رافضی کا اموال فئی میں کوئی حصہ نہیں کیونکہ قرآن نے جن لوگوں کو حضرات مہاجرین اور انصار کے بعد اموال فئی کا مستحق بتایا ہے یہ وہ لوگ ہیں جو ان کے بعد دنیا میں آئے اور ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعاء کی روافض دعا کے بجائے ان حضرات کو برا کہتے ہیں لہٰذا انہیں اموال فئی میں کوئی استحقاق نہیں کیونکہ ان میں وہ صفت نہیں ہے جو صفت اللہ تعالیٰ نے مستحقین فئی کی بیان فرمائی ہے۔
Top