Tafseer-e-Majidi - Al-Hashr : 10
وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ۠   ۧ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ جَآءُوْ : وہ آئے مِنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں رَبَّنَا : اے ہمارے رب اغْفِرْ لَنَا : ہمیں بخشدے وَلِاِخْوَانِنَا : اور ہمارے بھائیوں کو الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے سَبَقُوْنَا : ہم سے سبقت کی بِالْاِيْمَانِ : ایمان میں وَلَا تَجْعَلْ : اور نہ ہونے دے فِيْ قُلُوْبِنَا : ہمارے دلوں میں غِلًّا : کوئی کینہ لِّلَّذِيْنَ : ان لوگوں کیلئے جو اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائے رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اِنَّكَ : بیشک تو رَءُوْفٌ : شفقت کرنیوالا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
اور ان لوگوں کا (بھی حق ہے) جو ان کے بعد آئے، (اور وہ) یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار تو تو بڑا شفیق ہے بڑا مہربان ہے،19۔
19۔ (اس لئے ہماری یہ دعا دنیا وآخرت دونوں میں ضرور قبول کرے گا) یہ قرآنی مدح صحابہ کا تیسرا جزو ہے، اور مہاجرین وانصار دونوں کے حق میں جامع۔ یہ لوگ وہ تھے کہ اپنے سے اگلوں کے ساتھ عقیدت رکھتے تھے، اور اپنے سامنے والوں اور اپنے پچھلوں کے ساتھ محبت و شفقت، اور دعائے خیر اب کے لئے عام رکھتے تھے۔ (آیت) ” والذین جآء و من بعدھم “۔ یعنی ان مہاجرین وانصار کے بعد، دنیا میں آئیں گے، یا اسلام میں داخل ہوں گے، یا ہجرت میں شریک ہوں گے۔ تقسیم فے کا یہ سلسلہ قیامت تک برابر امت میں جاری رہے گا۔ اور یہ قول خلیفہ حضرت عمر ؓ کے علاوہ صحابیوں، تابعین اور فقہاء کی ایک بڑی جماعت کا ہے :۔ قال عمر ؓ دخل فی ھذا الفیء کل من ھو مولود الی یوم القیامۃ فی الاسلام (مدارک) ھم التابعون بعد قرن الصحابۃ الی یوم القیامۃ وھو اختیار جماعۃ منھم مالک بن انس (ابن العربی) فھی فی جمیع التابعین والاتین بعدھم الی یوم الدین والاوجہ لتخصیصھا (ابن العربی) وھم ال مومن ون بعد الفریقین الی یوم القیامۃ ولذلک قیل ان الایۃ قد استوعیت جمیع ال مومنین (بیضاوی) وقیل ھم ال مومن ون بعد الفرقین الی یوم القیامۃ و کلام کثیر من السلف کلصریح فیہ فالایۃ قد استوعبت ال مومنین (روح) مصارف فئے تو قرآن مجید نے خود ہی متعین کرددیئے تھے، (ملاحظہ ہو آیت نمبر 7) البتہ ان کی تقسیم رسول اللہ ﷺ کی رائے پر مالکانہ حیثیت سے موقوف رکھی تھی، وفات شریف کے بعد یہ تفویض رائے کا پہلوتو ختم ہوگیا۔ البتہ آیندہ اہتمام وانتظام خلفاء اور جانشینوں کے لئے مالکانہ حیثیت سے نہیں، صرف حاکمانہ حیثیت سے باقی رہ گئی۔ (آیت) ” ربنا ..... بالایمان “۔ دعائے خیر متقدمین اور سابقین کے حق میں ہے۔ (آیت) ” ولا ..... امنوا “۔ اس دعائے خیر کا زیادہ تعلق معاصرین سے ہے۔ (آیت) ” ربنا ..... بالایمان “۔ اپنے سے پہلے کے ایمان والوں کے حق میں دعائے مغفرت کرنا علامات ایمان سے ہے۔ اور حضرات صوفیہ کے ہاں تو سلف کے لئے دعائے خیر کرتے رہنا معمولات میں داخل ہے۔ محققین ومتکلمین نے لکھا ہے کہ جب دوسرے مومنین کے لئے دعاء استغفار اور ان کی طرف سے حسد وبغض سے براءت عامہ مومنین کی شان ہے تو صحابہ رسول، جو امت کے خواص ہی میں نہیں، اخص الخواص تھے، اور ان کے لئے یہ کیسے قابل تسلیم ہوسکتا ہے کہ وہ عارضی اختلافات اور تنازعات کی بناء پر ایک دوسرے کے بد خواہ، اور ایک دوسرے کے حق میں لعان ہوگئے ہوں گے۔ (آیت) ” لاخواننا “۔ یہ اخوت محض عقائد ایمان کی ہے۔ ورنہ ظاہر ہے کہ قومی، نسلی، لسانی، وطنی، لونی غرض، بجز وحدت اعتقادی کے اور حیثیت سے مومنین کے گروہ ایک دوسرے سے مختلف ہی ہوتے ہیں۔
Top