Anwar-ul-Bayan - Al-A'raaf : 180
وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا١۪ وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اَسْمَآئِهٖ١ؕ سَیُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے الْاَسْمَآءُ : نام (جمع) الْحُسْنٰى : اچھے فَادْعُوْهُ : پس اس کو پکارو بِهَا : ان سے وَذَرُوا : اور چھوڑ دو الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يُلْحِدُوْنَ : کج روی کرتے ہیں فِيْٓ اَسْمَآئِهٖ : اس کے نام سَيُجْزَوْنَ : عنقریب وہ بدلہ پائیں گے مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
اور اللہ کے لیے اچھے نام ہیں سو تم اسے ان ناموں سے پکارو، اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں کج روی اختیار کرتے ہیں۔ عنقریب ان کو ان اعمال کا بدلہ دیا جائے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔
اللہ تعالیٰ کے لیے اسماء حسنیٰ ہیں ان کے ذریعہ اس کو پکارو علامہ قرطبی نے اپنی تفسیر میں (ص 325 ج 7) آیت بالا کا سبب نزول بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ مسلمانوں میں سے ایک شخص نماز میں یَا رَحْمٰنُ یَا رَحِیْمُ کہہ رہا تھا۔ مکہ مکرمہ کے ایک مشرک نے سن لیا تو کہنے لگا کہ محمد ﷺ اور ان کے ساتھی یوں کہتے ہیں کہ ہم ایک ہی رب کی عبادت کرتے ہیں حالانکہ یہ شخص ایسے الفاظ کہہ رہا ہے جن سے دو رب کا پکارنا سمجھ میں آ رہا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اس آیت میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے اچھے اچھے نام ہیں ان کے ذریعہ اسے پکارو، پکارو لفظ فادْعُوْہُ کا ترجمہ ہے اور بعض حضرات نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ اللہ کو ان ناموں سے موسوم کرو۔ دونوں طرح ترجمہ کرنا درست ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے اسماء حسنیٰ ہیں۔ یہ مضمون سورة بنی اسرائیل کے ختم پر اور سورة حشر کے ختم پر بھی مذکور ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اسمائے حسنیٰ کے ذریعہ پکارنا۔ ان اسماء کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا اور ان اسماء کے توسل سے اللہ تعالیٰ سے دعاء مانگنا یہ سب (فَادْعُوْہُ بِھَا) کے عموم میں آجاتا ہے۔ صحیح بخاری (ص 349 ج 2) میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ لِلّٰہِ تسعۃ و تسعون اسمًا ماءۃ اِّلا واحدًا لا یحفظھا احدٌ الاَّ دَخَلَ الجَنَّۃ (یعنی اللہ کے ایک کم سو یعنی ننانوے نام ہیں جو شخص انہیں یاد کرے گا ضرور جنت میں داخل ہوگا) اور صحیح مسلم (ص 342 ج 2) میں ہے۔ مَنْ اَحْصَاھَا دَخَلَ الْجَنَّۃَ (یعنی جس نے ان ناموں کو شمار کرلیا وہ جنت میں داخل ہوگا) ۔ امام بخاری (رح) فرماتے ہیں کہ من احصاھا، من حفظھا کے معنی میں ہے۔ سنن ترمذی میں ننانوے نام مذکورہ ہیں اور سنن ابن ماجہ میں بھی ہیں لیکن ان میں بعض اسماء وہ ہیں جو ترمذی کی روایت میں نہیں ہیں اور دیگر کتب حدیث میں بھی بعض اسماء مذکور ہیں، جو ترمذی کی روایت کے علاوہ ہے۔ اسی لیے حضرات محدثین کرام نے فرمایا ہے کہ حدیث کا مقصود یہ نہیں کہ اللہ کے صرف ننانوے نام ہیں بلکہ حدیث کا مقصد یہ ہے کہ جو شخص کوئی سے بھی ننانوے اسمائے حسنیٰ کو یاد کرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا۔ قال الحافظ ابن حجر (رح) تعالیٰ فی فتح الباری فالمراد الاخبار ان دخول الجنۃ باحصاء ھا لا الاخبار بحصر الاسماء۔ (حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ مراد یہ ہے کہ جنت کا داخلہ اسمائے مبارکہ کے یاد کرنے پر ہے یہ مطلب نہیں کر صرف شمار کرلینے سے جنت میں داخلہ کی فضیلت ہے) حضرات محدثین کرام کا اس میں اختلاف ہے کہ یہ اسمائے حسنیٰ جو کتب حدیث میں یکجا ہیں خود حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمائے ہیں یا بعض رواۃِ حدیث نے حدیث کے ساتھ ملا کر روایت کردیے ہیں اگر ایسا ہے تو ان اسماء عالیہ کا ذکر حدیث میں مدرج ہوگا لیکن چونکہ ان اسماء میں اکثر ایسے ہیں جو قرآن اور حدیث میں بالتصریح موجود ہیں اور بعض ایسے ہیں جو آیات اور احادیث کے مضامین سے مستفاد ہوتے ہیں اس لیے ان کو یاد کرنا اور دعاء سے پہلے حمد وثناء کے طور پر ان کو پڑھ لینا قبولیت دعاء کا وسیلہ ضرور ہے۔ علامہ سیوطی (رح) نے جامع صغیر میں بحوالہ حلیۃ الاولیاء حضرت علی ؓ سے حدیث نقل کی ہے۔ اِنَّ لِلّٰہَ تسْعَۃً وَّ تِسْعِیْنَ اِسْماً مَاءۃ غیر واحِدۃ اِنَّہٗ وِتْرٌ یُحِبُّ الْوِتْرَ وَ مَا مِنْ عَبدٍ یَّدعُوْبِھَا اِلَّا وَجَبَتْ لَہُ الْجَنَّۃُ اس میں بھی یدعوبھا کا ایک مطلب تو وہی ہے کہ ان اسماء کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کو یاد کرے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان سماء کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے یعنی ان اسماء کو پڑھے پھر اللہ تعالیٰ سے دعاء کرے۔ علامہ جزری (رح) نے الحصن الحصین میں اس طرح کی احادیث نقل کی ہیں جن سے اسماء الٰہیہ کا ذکر کرنے کے بعد دعاء کی جائے تو دعا قبول ہونے کا وعدہ ہے بحوالہ سنن ترمذی علامہ جزری نے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو یَا ذَا الْجَلَالِ وَالْاِکْرَام کہتے ہوئے سنا تو آپ نے فرمایا کہ تیری دعاء قبول ہوگی تو سوال کرلے، پھر بحوالہ مستدرک حاکم نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ایک شخص پر گزر ہوا جو یا ارحم الراحمین پڑھ رہا تھا آپ نے فرمایا کہ سوال کر اللہ تعالیٰ شانہٗ نے تیری طرف (رحمت کی) نظر فرمائی اور ایک شخص یہ پڑھ رہا تھا۔ اَللّٰھُمَّ اِنّیْ اَسْأَلُکَ بِاَنَّکَ اَنْتَ اللّٰہُ الْاَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِیْ لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ وَ لَمْ یَِکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ آپ ﷺ نے اس کے یہ الفاظ سن کر فرمایا کہ اس شخص نے اللہ تعالیٰ کے اسم اعظم کے وسیلہ سے دعاء کی ہے اس کے ذریعہ سوال کیا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ عطا فرما دیتا ہے اور اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے دعاء کی جاتی ہے تو قبول فرما لیتا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 199 از ترمذی) درمنثور ص 149 ج 3 میں امام بیہقی سے نقل کیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ دو رکعت نماز پڑھ کر دعا کرنے لگیں تو انہوں نے یوں کہا : اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْأَلُکَ بِجَمِِیْعِ اَسْمَآءِکَ الْحُسْنٰی کُلِّھَا مَاعَلِمْنَا مِنْھَا وَ مَا لَمْ نَعْلَمْ وَ اَسْأَلُکَ باسْمِکَ الْعَظِیْمِ الْاَعْظَمِ الْکَبِیْر الْاَکْبَرِ الَّذِیْ مَنْ دَعَاکَ بِہٖ اَجَبْتَہٗ وَ مَنْ سَالَکَ بِہٖ اَعْطَیْتَہٗ ) یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو نے ٹھیک طریقہ اختیار کیا دو بار ایسا ہی فرمایا۔ یہ علامہ قرطبی نے فادعوہ بھا کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ای اطلبوا منہ باسماۂ فیطلب بکل اسم مایلیق بہ تقول یا رحیم ارحمنی یا حکیم احکم بی یا رازق ارزقنی یا ھادی اھدنی یا فتاح افتح لی یا تواب تب علی ھکذا۔ (یعنی اللہ تعالیٰ سے اس کے ناموں کے وسیلہ سے مانگو اور ہر نام کے مطابق طلب کیا جائے مثلاً کہو اے رحیم مجھ پر رحم فرما، اے حکیم میرے لیے حکمت کا فیصلہ فرما، اے رازق مجھے رزق دے، اے ہادی مجھے ہدایت دے، اے فتاح میرے لیے فتوحات کے دروازے کھول، اے توبہ قبول کرنے والے میری توبہ قبول فرما) ۔ اسمائے حسنیٰ کے ذریعہ اللہ کو یاد کرنے اور اللہ سے مانگنے کا حکم دینے کے بعد ارشاد فرمایا (وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْٓ اَسْمَآءِہٖ سَیُجْزَوْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ) (اور ان لوگوں کو چھوڑو جو اس کے ناموں میں کجروی اختیار کرتے ہیں وہ ان کاموں کا بدلہ پالیں گے جو وہ کیا کرتے تھے) ۔ اسمائے الٰہیہ میں کج روی اختیار کرنے کا کیا مطلب ہے ؟ اس کے بارے میں تفسیر قرطبی اور تفسیر درمنثور میں حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ مشرکین نے اللہ تعالیٰ کے ناموں سے مشتق کر کے اپنے بتوں کے نام رکھ دیئے تھے مثلاً لفظ اللہ سے اللات نکالا اور لفظ العزیز سے العزیٰ نکالا اور المنان سے منات نکالا اور ان ناموں سے اپنے بتوں کو موسوم کردیا اور درمنثور میں حضرت اعمش سے اس کی تفسیر یوں نقل کی ہے کہ یدخلون فیھا مالیس منھا یعنی اللہ کے ناموں میں ان ناموں کا اضافہ کردیتے ہیں جو اس کے نام نہیں ہیں علماء امت کا اس پر اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء توقیفی ہیں۔ قرآن و حدیث میں جو اسماء وارد ہوئے ہیں ان کے سوا دوسرے ناموں سے اللہ کو موصوف نہ کیا جائے، بہت سے لوگ اللہ کے نام مخلوق کے لیے استعمال کردیتے ہیں اور وہ اس طرح سے لفظ عبد کو چھوڑ کر مسمی کا نام لیتے ہیں مثلاً عبدالرحمن کو رحمن صاحب اور عبدالغفار کو غفار صاحب اور عبدالغفور کو غفور صاحب کہہ کر پکارتے ہیں۔ اس سے سختی کے ساتھ پرہیز کرنا لازم ہے۔
Top