Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 180
وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا١۪ وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اَسْمَآئِهٖ١ؕ سَیُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے الْاَسْمَآءُ : نام (جمع) الْحُسْنٰى : اچھے فَادْعُوْهُ : پس اس کو پکارو بِهَا : ان سے وَذَرُوا : اور چھوڑ دو الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يُلْحِدُوْنَ : کج روی کرتے ہیں فِيْٓ اَسْمَآئِهٖ : اس کے نام سَيُجْزَوْنَ : عنقریب وہ بدلہ پائیں گے مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
اور اللہ ہی کے لئے اچھے اچھے (مخصوص) نام ہیں سو انہی سے اسے پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑے رہو جو اس کے صفات سے کجروی کرتے رہتے ہیں ضرور انہیں اس کا بدلہ ملے گا جو کچھ کہ وہ کرتے رہتے ہیں،261 ۔
261 ۔ (آیت) ” وذروالذین یلحدون فی اسمآۂ “۔ یعنی جو لوگ اللہ کے اسماء وصفات میں الحاد سے کام لیتے رہتے ہیں انہیں چھوڑ رہو۔ ایسوں سے بالکل بےتعلق رہو لیکن خود الحاد فی الاسماء کیا چیز ہے ؟ الحد کے لفظی معنی کجروی کے یا انحراف کے ہیں۔ اور یلحدون فی اسماۂ کے دو پہل وہیں ایک یہ کہ جو صفات موصوف میں نہ موجود ہوں، یا جو اس کے مرتبہ کے خلاف ہوں، انہیں اس کی جانب منسوب کردیا جائے، دوسرے یہ کہ جو صفات اس موصوف میں ہوں، ان میں خواہ مخواہ دوسروں کو شریک کرلیاجائے، والالحاد فی اسماۂ علی وجھین احدھما ان یوصف بما لا یصح وصفہ بہ والثانی ان یتأول اوصافہ علی ما لا یلیق بہ (راغب) یہاں ممانعت دونوں چیزوں کی ہے۔ نہ اللہ تعالیٰ کو اس کے کمالات سے خالی سمجھو اور نہ اس کے کمالات میں دیوی، دیوتاؤں اپنے من گھڑت معبودوں کو شریک کرو۔ (آیت) ” للہ الاسمآء الحسنی “۔ اللہ کے اسماء حسنی اس کے صفات کمال کے حامل ہیں۔ اور یہ وہ مخصوص نام ہیں جن کا اسماء الہی ہونا قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ یونان وغیرہ کے بعض مشرک فلسفیوں کا قول ہے کہ ذات الہی کی نہ کوئی صفت ہے اور نہ کوئی اس کا نام۔ اکابر یہود بھی اس مہمل فلسفہ سے متاثر ہوگئے تھے۔ یہاں ان کی تردید بھی مدنظر ہے۔ ملاحظہ ہوں انگریزی تفسیر القرآن کے حاشیے۔ الاسماء الحسنی سے مراد صفات کمالیہ بھی ہی۔ المراد بھا الالفاظ وقیل الصفات (بیضاوی)
Top