Tafseer-al-Kitaab - Al-A'raaf : 180
وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا١۪ وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اَسْمَآئِهٖ١ؕ سَیُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے الْاَسْمَآءُ : نام (جمع) الْحُسْنٰى : اچھے فَادْعُوْهُ : پس اس کو پکارو بِهَا : ان سے وَذَرُوا : اور چھوڑ دو الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يُلْحِدُوْنَ : کج روی کرتے ہیں فِيْٓ اَسْمَآئِهٖ : اس کے نام سَيُجْزَوْنَ : عنقریب وہ بدلہ پائیں گے مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
اور اللہ ہی کے لئے ہیں اچھے نام، پس تم ان ہی (ناموں) سے اسے پکارو اور جو لوگ اس کے ناموں میں کج روی کرتے ہیں تو انہیں (ان کے حال پر) چھوڑ دو ۔ وہ جلد اپنے کئے کا بدلہ پائیں گے۔
[72] اچھے ناموں سے مراد اللہ تعالیٰ کی عظمت و تقدس، خوبی و جمال کی صفات ہیں جنہیں قرآن نے جا بجا بیان کیا ہے اور شمار کی گئیں تو ننانوے نکلیں۔ اس کائنات میں جو کچھ ہے انہی صفات کا ظہور ہے۔ [73] اللہ تعالیٰ کے ناموں میں کج روی کے دو پہلو ہیں، ایک یہ کہ جو صفات اللہ تعالیٰ میں موجود نہ ہوں یا اس کے مرتبے سے فرو تر ہوں انہیں اس کی جانب منسوب کیا جائے، جیسے مشرکین کا فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں اور نصاریٰ کا عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا کہنا۔ دوسرا پہلو یہ کہ جو صفات اللہ تعالیٰ میں موجود ہیں ان میں دوسرے کو شریک کیا جائے۔ جیسے مشکل کشا، فریاد رس، دست گیر، ان داتا، شہنشاہ وغیرہ۔
Top