Tafheem-ul-Quran - Al-A'raaf : 180
وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا١۪ وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اَسْمَآئِهٖ١ؕ سَیُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے الْاَسْمَآءُ : نام (جمع) الْحُسْنٰى : اچھے فَادْعُوْهُ : پس اس کو پکارو بِهَا : ان سے وَذَرُوا : اور چھوڑ دو الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يُلْحِدُوْنَ : کج روی کرتے ہیں فِيْٓ اَسْمَآئِهٖ : اس کے نام سَيُجْزَوْنَ : عنقریب وہ بدلہ پائیں گے مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
141اللہ اچھے ناموں کا مستحق ہے، اس کو اچھے ہی ناموں سے پکارو اور اُن لوگو ں کو چھوڑ دوجو اس کے نام رکھنے میں راستی سے منحرف ہو جاتے ہیں۔ جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں اس کا بدلہ وہ پاکر رہیں گے۔142
سورة الْاَعْرَاف 141 اب تقریر اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے اس لیے خاتمہ کلام پر نصیحت اور ملامت کے ملے جلے انداز میں لوگوں کو ان کی چند نمایاں ترین گمراہیوں پر متنبہ کیا جارہا ہے اور ساتھ ہی پیغمبر کی دعوت کے مقابلہ میں انکار و استہزا کا جو رویّہ انہوں نے اختیار کر رکھا تھا اس کی غلطی سمجھاتے ہوئے اس کے برے انجام سے انہیں خبردار کیا جارہا ہے۔ سورة الْاَعْرَاف 142 انسان اپنی زبان میں اشیاء کے جو نام رکھتا ہے وہ دراصل اس تصور پر مبنی ہوتے ہیں جو اس کے ذہن میں ان اشیاء کے متعلق ہوا کرتا ہے۔ تصور کا نقص نام کے نقص کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور نام کا نقص تصوّر کے نقص پر دلالت کرتا ہے۔ پھر اشیاء کے ساتھ انسان کا تعلق اور معاملہ بھی لازماً اس تصور پر ہی مبنی ہوا کرتا ہے جو اپنے ذہن میں اس کے متعلق رکھتا ہے۔ تصور کی خرابی تعلق کی خرابی میں رونما ہوتی ہے اور تصور کی صحت و درستی میں نمایاں ہو کر رہتی ہے۔ یہ حقیقت جس طرح دنیا کی تمام چیزوں کے معاملہ میں صحیح ہے اسی طرح اللہ کے معاملہ میں بھی صحیح ہے۔ اللہ کے لیے نام (خواہ وہ اسماء ذات ہوں یا اسماء صفات) تجویز کرنے میں انسان جو غلطی بھی کرتا ہے وہ دراصل اللہ کی ذات وصفات کے متعلق اس کے عقیدے کی غلطی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ پھر خدا کے متعلق اپنے تصور و اعتقاد میں انسان جتنی اور جیسی غلطی کرتا ہے، اتنی ہی اور ویسی ہی غلطی اس سے اپنی زندگی کے پورے اخلاقی رویہ کی تشکیل میں سرزد ہوتی ہے، کیونکہ انسان کے اخلاقی رویہ کی تشکیل تمام تر منحصر ہے اس تصور پر جو اس نے خدا کے بارے میں اور خدا کے ساتھ اپنے اور کائنات کے تعلق کے بارے میں قائم کیا ہو۔ اسی لیے فرمایا کہ خدا کے نام رکھنے میں غلطی کرنے سے بچو، خدا کے لیے اچھے نام ہی موزوں ہیں اور اسے انہی ناموں سے یاد کرنا چاہیے، اس کے نام تجویز کرنے میں الحاد کا انجام بہت برا ہے۔ ”اچھے ناموں“ سے مراد وہ نام ہیں جن سے خدا کی عظمت و برتری، اس کے تقدس اور پاکیزگی، اور اس کی صفات کمالیہ کا اظہار ہوتا ہو۔ ”الحاد“ کے معنی ہیں وسط سے ہٹ جانا، سیدھے رخ سے منحرف ہوجانا۔ تیر جب ٹھیک نشانے پر بیٹھنے کے بجائٕے کسی دوسری طرف جا لگتا ہے تو عربی میں کہتے ہیں الحد السہم الھدفَ ، یعنی تیر نے نشانے سے الحاد کیا۔ خدا کے نام رکھنے میں الحاد یہ ہے کہ خدا کو ایسے نام دیے جائیں گو اس کے مرتبے سے فروتر ہوں، جو اس کے ادب کے منافی ہوں، جن سے عیوب اور نقائص اس کی طرف منسوب ہوتے ہوں، یا جن سے اس کی ذات اقدس و اعلیٰ کے متعلق کسی غلط عقیدے کا اظہار ہوتا ہو۔ نیز یہ بھی الحاد ہی ہے کہ مخلوقات میں کسی کے لیے ایسا نام رکھا جائے جو صرف خدا ہی کے لیے موزوں ہو۔ پھر یہ فرمایا کہ اللہ کے نام رکھنے میں جو لوگ الحاد کرتے ہیں ان کو چھوڑ دو۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ لوگ سیدھی طرح سمجھانے سے نہیں سمجھتے تو ان کی کج بحثیوں میں تم کو الجھنے کی کوئی ضرورت نہیں، اپنی گمراہی کا انجام وہ خود دیکھ لیں گے۔
Top