Anwar-ul-Bayan - Ar-Rahmaan : 14
خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِۙ
خَلَقَ الْاِنْسَانَ : اس نے پیدا کیا انسان کو مِنْ صَلْصَالٍ : بجنے والی مٹی سے كَالْفَخَّارِ : ٹھیکری کی طرح
اسی نے انسان کو ٹھیکرے کی طرح کھنکھناتی مٹی سے بنایا
(55:14) صلصال۔ بجتی ہوئی مٹی۔ کھنکھناتی ہوئی مٹی۔ وہ خشک مٹی کہ جب اس پر انگلی ماری جائے تو بجنے اور کھنکھنانے لگے۔ صلصال کہلاتی ہے۔ امام راغب لکھتے ہیں :۔ صلصال اصل میں خشک چیز کے بجنے کا نام ہے اسی سے محاورہ ہے صلی المسمار (کھونٹی بجی) بعض نے کہا ہے کہ صلصال سڑی ہوئی مٹی ہے۔ یہ عرب کے محاورہ صل اللحم سے ماخوذ ہے۔ (گوشت سڑ گیا) کالفخار۔ ک تشبیہ کا ہے اس کا واحد فخارۃ ہے۔ مٹکوں کو کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ٹھوکا لگانے سے اس طرح زور سے بولتے ہیں جیسے کوئی بہت زیادہ فخر کر رہا ہو۔ یہ الفخر (باب نصر) سے مصدر ہے۔ جس کے معنی ان چیزوں پر اترانے کے ہیں جو انسان کے ذاتی جوہر سے خارج ہوں َ مثلاً مال و جاہ وغیرہ۔ فاخر اسم فاعل ہے اور فخوروفخیر مبالغہ کے صیغے ہیں۔ فائدہ : حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کے بارے میں قرآن مجید میں مختلف الفاظ مذکور ہیں کہیں ارشاد ہے :۔ (1) ان مثل عیسیٰ عند اللہ کمثل ادم خلقہ من تراب (3:59) بیشک (حضرت) عیسیٰ (علیہ السلام) کا حال (حضرت) آدم (علیہ لالسام) کا سا ہے۔ اس نے مٹی سے اس کو پیدا کیا۔ (2) کہیں فرمایا ہے : انا خلقنھم من طین لازب (37:11) بیشک ہم نے (جتنی خلقت بنائی ہے) اسکو چپکتے گارے سے بنایا ہے (3) کہیں فرمایا ولقد خلقنا الانسان من صلصال کالفخار 55:14) اسی نے انسان کو ٹھیکرے کی طرح کھنکھناتی مٹی سے بنایا در حقیقت ان الفاظ میں اختلاف نہیں ہے بلکہ مطلب ایک ہی ہے۔ کیونکہ حضرت آدم کو اللہ تعالیٰ نے اول مٹی سے پیدا کیا۔ پھر اس میں پانی ملا تو طین لازب ہوئی یعنی اس میں چپک پیدا ہوئی اس کے بعد حما مسنون کہلائی۔ کہ سیاہ ہوگئی اور سڑ گئی۔ پھر جب خشک ہوئی صلصال کالفخار سے موسوم ہوئی۔ کہ ٹھیکری کی طرح کھن کھن بجنے لگی۔
Top