بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Asrar-ut-Tanzil - Al-Kahf : 1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلٰى عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَ لَمْ یَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًاؕٚ
اَلْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کیلئے الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَنْزَلَ : نازل کی عَلٰي عَبْدِهِ : اپنے بندہ پر الْكِتٰبَ : کتاب (قرآن) وَلَمْ يَجْعَلْ : اور نہ رکھی لَّهٗ : اس میں عِوَجًا : کوئی کجی
تمام خوبیاں اللہ کے لئے ہیں جس نے اپنے (خاص) بندے پر (یہ) کتاب نازل فرمائی اور اس میں کسی طرح کی پیچیدگی نہیں رکھی
سورة الکہف : (رکوع نمبر 1) اسرارومعارف سورة کہف بھی مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی اور اس میں انہی دو سوالوں کے جوابات ارشاد فرمائے گئے جو کفار مکہ نے یہود مدینہ سے پوچھ کر کئے تھے ، تیسرے سوال کا جواب سورة بنی اسرائیل میں اجمالا بیان ہوچکا جو روح کے بارے میں تھا ، مگر ان دونوں کے جواب مفصل دیئے گئے ، اگرچہ ان کی تفصیل بھی جغرافیائی محل وقوع تاریخی اعتبار سے زمانہ افراد کی حتمی تعداد وغیرہ باتوں کو بیان نہیں کرتی ، کہ قرآن حکیم کا موضوع تاریخ و جغرافیہ نہیں بلکہ لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا اور ان کی اصلاح احوال ہے تو جس حد تک واقعہ سے اس امر میں مدد حاصل ہوتی ہو اس حد تک اس واقعہ کو بیان کیا جاتا ہے بلکہ بعض واقعات کے مختلف اجزا مختلف مواقع پر بیان فرمائے گئے کہ وہاں ان کی مثال پیش کرنا مطلوب تھا اور بعض واقعات کو کئی کئی بار دہرایا گیا جس سے بھی یہی مقصود ہے ۔ مفسرین نے اس سورة کے بہت زیادہ فضائل نقل فرمائے ہیں اور مختلف فتنوں سے حفاظت کے لیے اس کی تلاوت کا ارشاد فرمایا گیا ہے روزانہ پڑھے یا ہر جمعہ کو پڑھے ، یا پھر پہلی اور آخری آیات یاد کر کے بطور وظیفہ پڑھنا فتنوں سے حفاظت کا سبب ہے ۔ قصہ ان حضرات کا مختصرا یہ ہے کہ اس شہر پر جس کے یہ لوگ باسی تھے ایک ظالم اور کافر دقیانوس نامی بادشاہ حکومت کرتا تھا ، مفسرین نے اسے اندلس کا شہر لکھا ہے اور ایسیائے کوچک کا شہر بھی لکھا ہے اور بعض مفسرین نے فلسطین سے نیچے آپلہ یا موجودہ عقبہ کے قریب لکھا ہے جو سب اندازے ہیں اور کوئی بھی قطعی نہیں بلکہ دین عیسوی میں رہبانیت کی بہت فضیلت تھی ، اس اعتبار سے اکثر لوگوں نے عمریں غاروں میں گذار دیں تو مختلف جگہوں پر ایسے غار ملتے ہیں جن میں فوت شدہ لوگوں کے ڈھانچے پائے گئے ہیں لیکن یہ متعین نہیں کیا جاسکتا کہ جن لوگوں کا قصہ قرآن حکیم میں بیان ہوا ہے وہ یہی اصحاب کہف ہیں یا یہ ان کا غار ہے ، رقیم بعض حضرات کے نزدیک ایک وادی کا نام ہے جس میں یہ غار ہے اور بعض حضرات کے نزدیک اس بستی کا نام ہے جس کے یہ لوگ رہنے والے تھے جدید مؤرخین نے بھی اس موضوع پر بہت تحقیق کی ہے مگر نتیجہ سوائے بحث کے کچھ نہیں کہ یقینی اور حتمی بات کوئی نہیں بتا سکتا سوائے اس کے کہ یہ لوگ دین عیسوی پر تھے اور چند نوجوان تھے جو امراء سلطنت کے کھاتے پیتے گھرانوں کے بچے تھے بادشاہ ظالم تھا اور قوم بت پرستی میں مبتلا تھی انہیں اس بات سے نفرت پیدا ہوئی اور ایک قومی اجتماع میں بت پرستی دیکھ کر وہاں سے الگ ہوگئے ، مگر بادشاہ کے پاس کسی نے شکایت کردی اس نے انہیں بلا کر ڈانٹا اور موقع دیا کہ آبائی مذہب اپنا لو ورنہ قتل کردئیے جاؤ گے ، انہوں نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور واپس کفر میں جانے پر آبادی چھوڑنے اور جنگل میں پناہ لینے کو ترجیح دی چناچہ ایک غار میں پناہ گزین ہوئے اور اللہ سے پناہ چاہی ، اللہ جل جلالہ نے انہیں اپنی قدرت کاملہ سے آرام کی نیند سلا دیا ، اور وہ تین سو سال سوتے رہے ۔ دریں اثنا زمانہ بدل گیا ملک ایک مسلمان حکمران نے فتح کرلیا جو دین عیسوی پر تھا اور جس کا نام بیدوسیس تھا تب اللہ جل جلالہ نے انہیں جگا دیا وہ خوراک حاصل کرنے بازار گئے تو سکہ دیکھ کر لوگ حیرت میں پڑگئے ، چناچہ بادشاہ تک بات پہنچی اور یوں سارا واقعہ قدرت الہی کا کرشمہ اور قیامت میں جی اٹھنے کا ثبوت بن کر ظاہر ہوا وہ بادشاہ سے رخصت ہو کر اپنے غار میں آئے تو اللہ جل جلالہ نے موت وارد کردی اور پھر انہیں کوئی نہ دیکھ سکا یہ تو تھا اس سارے قصے کا اجمالی تذکرہ اب جو بات قرآن نے ارشاد فرمائی حق وہی ہے لہذا اس کی طرف ہی متوجہ ہونا ضروری ہے ۔ سب سے پہلے اللہ جل جلالہ کی عظمت اور بلندی شان اور احسان عظیم عظیم کا تذکرہ ہے کہ تمام خوبیاں اور کمالات اسی ذات کے لیے ہیں جس نے اپنے بندے پر ایسی کتاب نازل فرمائی جس میں کسی طرف کے جھکاؤ یا کسی جانب میلان کا شائبہ تک نہیں ، فصاحت وبلاغت ہو یا معنوی کمال ہر طرح سے خود ایک سیدھی راہ متعین فرمائی ہے اور کسی واقعہ یا طبقہ یا شے متاثر نہیں ہوتی بلکہ صاف صاف اور حق بات بیان کرتی ہے ۔ جو بھی غلطی اور اللہ جل جلالہ کی نافرمانی کرے اسے اس کے شدید اور پریشان کن نتائج سے خبردار کرتی ہے ، اور ایسے لوگوں کو جنہیں ایمان نصیب ہو جو اپنے ایمان اور عقیدے کا نری دعوی نہیں کرتے بلکہ ایمان کے مطابق احکام نبوی ﷺ کی پیروی میں نیک کام کرتے ہیں کہ یہی ایمان کا تقاضا ہے انہیں خوشخبری سناتی ہے اور بہترین اجر کی خبر دیتی ہے جس سے وہ ہمیشہ لطف اندوز ہوا کریں گے ۔ نیز ان لوگوں کو جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ معاذ اللہ اللہ کی اولاد ہے خاص طور پر اس کے انجام بد سے خبردار کرتی ہے کہ ان کے منہ سے نکلنے والی یہ بات بہت بڑی گستاخی ہے جس کے بارے میں نہ انہیں کوئی علم ہے اور ان کے آباء و اجداد کے پاس کوئی دلیل تھی ، ایسا کہنے والے لوگ بہت بڑا جھوٹ بولتے ہیں ۔ (انسانیت پر شفقت نبوی ﷺ کا حال) کفار ومشرکین کی ان خرافات اور گستاخیوں کے باوجود آپ ﷺ کی شفقت کا یہ حال کہ ان کی ایمان سے محرومی کے دکھ میں گویا آپ جان دے دیں گے یعنی آپ ﷺ اس قدر محسوس نہ فرمائیے کہ دنیا امتحان کی جگہ ہے اور کسی کو حکما مومن نہ بنایا جائے گا ، اللہ جل جلالہ کا یہ احسان کیا کم ہے کہ آپ ﷺ جیسی کریم ہستی اور قرآن جیسی کتاب عطا فرمائی ، اب فیصلہ ان کا ہے کہ کونسی راہ اپناتے ہیں لہذا آپ ﷺ ان باتوں کو اتنی شدت سے محسوس نہ فرمائیں کسی نے کیا خوب کہا ہے ۔ دوستاں راکجا کنی محروم تو کہ بادشمناں نظر داری : (مال و دولت دنیا باعث زینت ہے) زمین پر ہم نے جو بھی بنایا ہے وہ سب دنیا کی سجاوٹ ، زینت اور خوبصورتی کا سبب ہے ، اور لوگوں کو اپنی طرف راغب کرلیتا ہے مگر مقصد حصول دنیا میں کمال حاصل کرنا نہیں ، بلکہ آزمائش ہی یہی ہے کہ اس زیب وزینت کو راستے کی دیوار نہ بناتے ہوئے کون بہترین اور اچھے کام کرتا ہے یعنی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کو مال و دولت دنیا سے عزیز تر رکھتا ہے اور یہ سب رونق ایک خاص وقت تک کے لیے ہے آخر کو یہ سب تباہ وبرباد کرکے دنیا کو ایک چٹیل میدان کردیا جائے گا ۔ تو اے مخاطب تیرے خیال میں اصحاب کہف والرقیم کا حال ہماری قدرت کے کمال کی بہت عجیب و غریب بات ہے یعنی یہ اتنی بڑی بات نہیں بلکہ ارض وسما کی تخلیق ایک وسیع نظام کا قیام اور اس کا مسلسل چلنا یہ سب کچھ اس بات سے عجیب تر ہے جسے تم کوئی اہمیت نہیں دے رہے اور اس کی عظمت کا اقرار نہیں کرتے ، چند آدمیوں کو باقی رکھنا عجیب ہے یا ایک کائنات کو قائم رکھنا ۔ چناچہ وہ بات اس طرح ہے کہ چند نوجوانوں نے ایک ظالم حکمران سے بھاگ کر اور ساری دولت دنیا کو اپنے ایمان پر قربان کرکے ایک غار میں پناہ لی اور اللہ کو پکارا کہ اے ہمارے رب ہم پر اپنی رحمت کی بارش کر اور ہمارے کام کو درست کر دے یعنی تیری خاطر جہان سے منہ موڑ کر جب ہم نے غار کو اپنایا ہے تو ہمارے اس کام کو کامیاب فرما یہ نہ ہو کہ ہم مجبور و لاچار ہو کر پھر کفار کے ہتھے چڑھ جائیں ،۔ (مقبولیت دعا کی شرط) گویا جو دعا دنیاوی مفادات سے بالا ہو کر محض دینی فائدے اور حصول قرب الہی کے جذبے سے کی جائے وہ ضرور قبول ہوتی ہے خواہ وہ امر عقلا محال بھی ہو ، چناچہ ہم نے انہیں غم دنیا ، خوف کفار اور حوائج ضروریہ سب سے بچانے کے لیے ان پر گہری نیند طاری کردی جو برسوں ان پر طاری رہی یعنی تین صدیاں بیت گئیں تو ایک روز انہیں بیدار کردیا کہ دیکھیں ان میں سے کون سمجھ پاتا ہے کہ اس آغوش رحمت میں کتنا عرصۃ بیت گیا کہ خود ان میں سے بعض کا خیال تھا کہ تھوڑی دیر ہی گذری ہے ، یعنی دن کا کچھ حصہ اور بعض نے کہا کہ اللہ جل جلالہ ہی بہتر جانتا ہے اور دنیا کے لوگوں کو بھی ایک بہت بڑی نشانی دکھائی جائے جو اس کی قدرت پہ دلالت کرتی ہو۔
Top