بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Baseerat-e-Quran - Al-Kahf : 1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلٰى عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَ لَمْ یَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًاؕٚ
اَلْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کیلئے الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَنْزَلَ : نازل کی عَلٰي عَبْدِهِ : اپنے بندہ پر الْكِتٰبَ : کتاب (قرآن) وَلَمْ يَجْعَلْ : اور نہ رکھی لَّهٗ : اس میں عِوَجًا : کوئی کجی
تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے اپنے بندے (حضرت محمد ﷺ پر اس کتاب کو نازل کیا ہے اور اس میں کوئی کمی یا ٹیڑہ پن نہیں ہے۔
لغات القرآن آیت نمبر 1 تا 5 لم یجعل نہیں بنایا۔ عوج ٹیڑہ پن۔ کجی۔ قیم بالکل درست، صحیح۔ باس شدید سخت عذاب۔ ما کثین ٹھیرنے والے، جمنے والے۔ ابداً ہمیشہ کبرثت بڑی۔ کلمۃ بات، کلمہ افواہ (فوہ) منہ۔ تشریح : آیت نمبر 1 تا 5 سورۃ الکہف کے ابتدائی تعارف میں آپ نے ملاحظہ کرلیا ہے کہب عض یہودیوں کے کہنے پر کفار مکہ نے نبی کریم ﷺ سے اصحاب کہف، ذوالقرنین اور روح کے متعلق سوالات کئے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ عرب والے ان باتوں سے ناواقف ہیں جب ہم سوال کریں گے اور ان کا جواب نہ مل سکے گا تو ہمیں نبی کریم ﷺ اور قرآن کریم کا مذاق اڑانے اور یہ کہنے کا موقع ہاتھ آجائے گا کہ یہ قرآن اللہ کا کلام نہیں ہے بلکہ (نعوذ باللہ) نبی کریم ﷺ نے خود ہی گھڑ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورة الکہف کی ابتداء اس طرح فرمائی ہے کہ یہ کتاب الٰہی اللہ نے اپنے بندے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر نازل فرمائی ہے وہ اللہ جو اس کائنات میں ہر طرح کی خوبیوں اور قدرتوں کا مالک ہے۔ یہ اللہ کا نازل کیا ہوا کلام ہے جس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ قیامت تک آنے والے انسانوں کو سیدھی راہ عطا کردی جائے تاکہ وہ دین و دنیا کی تمام بھلائیاں اور کامیابیاں حاصل کرسکیں۔ لیکن وہ لوگ جو اس راہ مستقیم سے ہٹ کر چلنے والے ہیں ان کو بھی معلوم ہوجائے کہ ان کے لئے نہ تو دنیا کی عزتیں ہیں اور نہ آخرت کی ابدی راحتیں ہیں۔ فرمایا کہ اللہ نے ہر درو کے لوگوں کی ہدایت کے لئے اس قرآن کریم کو اپنے آخری نبی حضرت محمد ﷺ پر نازل کیا ہے جو راہ ہدایت بتانے اور منزل تک پہنچانے میں اس قدر واضح، صاف اور آسان ہے جس کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں کوئی الجھاؤ دشواری نہیں ہے۔ یہ کتاب الٰہی چند خصوصیات رکھتی ہے۔ ۔ (1) اس کو سمجھنے اور عمل کرنے میں ذرا بھی ٹیڑہ پن، منطقی انداز فکر یا فلسفیانہ الجھاؤ نہیں ہے بلکہ یہ قرآن اپنے معنی اور مفہوم کے لحاظ سے نہایت صاف صاف اور واضح احکامات پر مشتمل ہے۔ یہ ان کتابوں کی طرح نہیں ہے جس میں فکر و تحقیق کی لاتعداد باتیں ہوتی ہیں مگر عملی زندگی میں ان کو ڈھالنا مشکل اور ناممکن ہوتا ہے چونکہ قرآن کریم دنیا اور آخرت کو سدھار نے کا ذریعہ ہے اس لئے اس کا ہر اصول آسان اور سہل ہے جس پر عمل کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔ (2) اس کتاب الٰہی کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ ” قیم “ ہے اس قدر درست، صحیح، کامل اور مکمل ہے کہ اس کو پڑھنے ، سمجھنے اور عمل کرنے والا ” راہ مستقیم “ پر رہتا ہے یہ اس کتاب الٰہی کی خصوصیت ہے کہ وہ انسانوں کو اپنے رنگ کے اندر رنگ لیتی ہے اور ہر شخص کو علم و عمل کا پیکر بنا دیتی ہے۔ (3) تیسری خصوصیت یہ ہے کہ اس کتاب الٰہی کو ماننے، سمجھنے اور عمل کرنے والے لوگوں کو نہ صرف اس دنیا کی کامیابیاں عطا کی جاتی ہیں بلکہ ایمان و عمل صالح اختیار کرنے والوں کے لئے ابدی راحتوں، کامیابیوں اور عزت و سربلندی کی ایسی خوش خبریاں بھی دی گئی ہیں جن راحتوں میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور ان کی لذتوں سے لطف اندوز ہوں گے۔ (4) چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ جو لوگ بد عمل، بدنیت، اور بد عقیدہ ہیں جنہوں نے اللہ کی عبادت و بندگی کے بجائے اللہ کے نبیوں کو اللہ کا بیٹا بنا دیا ہے اور وہ ان ہی کی عبادت و بندگی کرتے ہیں ان کے لئے سخت سزا ہے۔ جیسے نصاری نے حضرت عیسیٰ کو اور یہودیوں نے حضرت عزیر کو اللہ کا بیٹا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ فرمایا کہ یہ ایک ایسا سفید جھوٹ اور بےتحقیق بات ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ اللہ کی بارگاہ میں بڑی سخت گستاخی اور ناقابل معافی جرم ہے۔ لہٰذا ایسے لوگوں کے لئے جہنم کی آگ تیار کی گئی ہے جس سے وہ بچ نہیں سکتے۔
Top