Asrar-ut-Tanzil - Al-Baqara : 3
الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ
الَّذِينَ : جو لوگ يُؤْمِنُونَ : ایمان لاتے ہیں بِالْغَيْبِ : غیب پر وَيُقِيمُونَ : اور قائم کرتے ہیں الصَّلَاةَ : نماز وَمِن : اور سے مَّا : جو رَزَقْنَاهُمْ : ہم نے انہیں دیا يُنْفِقُونَ : وہ خرچ کرتے ہیں
و ہ جو غائب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز کو قائم رکھتے ہیں اور جو ہم نے ان کو نعمتیں دی ہیں ان میں سے خرچ کرتے ہیں
الدین یومنون بالغیب ، سب سے پہلے بات ایمان بالغیب ہے کہ ایسے لوگ ان تمام باتوں پر جو اس انسانی کی رسائی سے باہر ہیں۔ رسول پاک ﷺ کے بتانے سے ایمان لاتے اور تصدیق کرتے ہیں سب سے بڑا غیب خود ذات باری ہے جس کی قدرت اس کی تخلیق سے تو ہویدا ہے مگر جو نہ نظر آتا ہے نہ جس کی کوئی مثال بیان کی جاسکتی ہے پھر تمام حقائق اخرویہ دوزخ وجنت عذاب وثواب ، قبر ، سوال و جواب قبر حشرونشر ، فرشتے ، لوح محفوظ ، غرض ہر وہ شے جس کی خبر رسول اللہ ﷺ نے دی ہے مگر حواس انسانی مادی کے ادراک سے بالا تر ہے اسے صدق دل سے مانتے ہیں اور یہ ماننا صرف اعتماد علی الرسول ﷺ نے دی ہے مگر حواس انسانی مادی کے ادراک سے بالاتر ہے اسے صدق دل سے مانتے ہیں اور یہ ماننا صرف اعتماد علی الرسول ﷺ پر منحصر ہے ورنہ کوئی حیلہ عقلی وہاں تک رسائی نہیں رکھتا۔ آج کے دور میں چونکہ اس اعتماد میں بہت کمی آگئی ہے ایک طویل دور درمیان میں حائل ہے اور بقول دخل الزمان بیننا وفرق بیننا ان الزمان ھفرق الاحباب۔ زمانہ ہمارے درمیان ور آیا اور ہمیں جدا کردیا بیشک زمانہ دوستوں کو جدا کرنے والا ہے۔ اس درازی مدت اور نئی روشنی کے اندھیروں نے آج ا کے مسلمان سے وہ درج چھین لیا ہے جو قرب نبوی سے دل میں پیدا ہوتا ہے اور بغیر کسی عقلی دلیل کے سب سے بڑی دلیل یہ اعتبار کراتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ کا فرمادینا سب سے بڑا ثبوت ہے اور بس اس ساری حقیقت پر ایمان انسان کو مجبور کردیتا ہے کہ عملی زندگی کو اس روش پر ڈھائے جو قرب الٰہی کا سبب ہو جس کا سب سے پہلا زینہ صلوٰۃ ہے۔ ویقیمون الصلوٰۃ ، یعنی صلوٰۃ کو قائم کرتے ہیں اقامت صلوٰۃ صرف نماز پڑھنا ہی نہیں بلکہ صلوٰۃ کا ایک خاص اہتمام کرنا ہے وقت جماعت مسجد میں حاضری کا احساس ایک فکر جو امکان صلوٰۃ تک کارفرما ہو اور پھر نہ صرف صلوٰۃ ادا کرتا ہو بلکہ حقیقتاً تو اقامت صلوٰۃ یہ ہے کہ جہاں جہاں سے گزرتا جائے وہاں کے لوگوں کو بھی صلوٰۃ کا عادی بناتا جائے تب لطف ہے نماز قائم کرنے کا مگر یہ ماوشا کا مقام نہیں کہ کم از کم وقت پر اور درست طریقے سے صلوٰۃ ادا کرنے والے ہوتے ہیں۔ ومما رزقنھم ینفقون ، ایمان باللہ اور حضور باری کے اس اثر کو دیکھو کہ جن چیزوں کا فرجان دیتے ہیں وہ ان چیزوں کو اللہ کے حکم پر نثار کرتا ہے اگرچہ انفاق کا ترجمہ ادائے زکوٰۃ اور صدقات کیا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ تو فرائض و واجبات کی ہی بات نہیں بلکہ عملی زندگی کے معاشی پہلو یہ بات ہورہی ہے۔ یہ صرف معاشیات ہی ہیں جو انسانی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ ہیں جو چوری چکاری ، سودورشوت کا سبب ہیں جن کی اصطلاح تمام مکاتب فکر کے ماہرین چاہتے ہیں بلکہ یہ ایک تمدن کا حصہ ہے اور قرآن کریم نے اس کی اصطلاح کا جو طریقہ اختیار فرمایا ہے وہ ان سب سے الگ ہے یعنی وہ خرچ اللہ کے حکم کے مطابق کرتے ہیں ظاہر ہے جس شخص کو اللہ کے قانون کے مطابق خرچ کرنا ہوگا اسے غلط راستے سے کمانے کی کیا ضرورت ہے پھر یہاں تو بات سیدھی سی ہے کہ مما رزقنھم ، یعنی اس رزق میں سے جو ہم انہیں دیتے ہیں کہ جب دینے والا اللہ ہے تو حصور زر کے لئے ناجائز ذرائع کی کیا ضرورت ؟ ظاہر ہے کہ صرف انسانی نقطہ نظر کا فرق ہے ورنہ جب رزق اللہ کی طرف سے ہے تو یقینا وہی ملے گا جو مقرر ہے چاہے چوری کرے ، چاہے تو مزدور کرے اور پھر انسان کو تمام چیزیں اللہ کی طرف سے بطور رزق ہی ملی ہیں جسم وجان ، عقل وخرد ، قوت و طاقت علم وہنر ہر کمال اللہ کی طرف سے ہے اور اس کا مصرف اللہ کی راہ میں اور اللہ کی رضا کے لئے ہے یہ صرف حکایت نہیں بلکہ تاریخ عالم اس مقدس معاشرے کی گواہ ہے جو اس طرز پر تعمیر ہو اور جس کے آثار بھی باقی ہیں اور جو انشاء اللہ تاقیامت رہیں گے۔
Top