بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Taiseer-ul-Quran - Al-Kahf : 1
جَنّٰتِ عَدْنِ اِ۟لَّتِیْ وَعَدَ الرَّحْمٰنُ عِبَادَهٗ بِالْغَیْبِ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ وَعْدُهٗ مَاْتِیًّا
جَنّٰتِ عَدْنِ : ہمیشگی کے باغات الَّتِيْ : وہ جو وَعَدَ : وعدہ کیا الرَّحْمٰنُ : رحمن عِبَادَهٗ : اپنے بندے (جمع) بِالْغَيْبِ : غائبانہ اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : ہے وَعْدُهٗ : اس کا وعدہ مَاْتِيًّا : آنے والا
سب تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے اپنے 1۔ الف بندے پر یہ کتاب (قرآن) نازل کی اور اس میں کوئی کجی نہیں رکھی۔
1 سورة کہف کی فضیلت میں مندرجہ ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : 1۔ براء بن عازب کہتے ہیں کہ ایک شخص رات کو گھر میں یہ سورت پڑھ رہا تھا اور گھوڑا بھی وہیں بندھا ہوا تھا گھوڑا بدکنے لگا۔ اس نے اوپر جو سر اٹھا کر دیکھا تو ایک نور دکھائی دیا جو بادل کی طرح سایہ کیے ہوئے تھا صبح اس نے یہ واقعہ رسول اللہ سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا یہ سکینہ (نور اطمینان) ہے جو اس کے پڑھنے سے نازل ہوئی تھی۔ (ترمذی، ابو اب فضائل القرآن۔ باب ماجاء فی سورة کہف) اس واقعہ کو بخاری اور مسلم نے بھی روایت کیا ہے۔ 2۔ سیدنا ابو الدرداء کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : جو شخص اس سورة کی ابتدائی تین آیات پڑھتا رہے وہ فتنہ دجال سے محفوظ رہے گا (ترمذی، ابو اب فضائل القرآن۔ باب ماجاء فی سورة الکہف) اور مسلم میں اس طرح ہے کہ جو شخص سورة کہف کی ابتدائی دس آیات یاد کرے وہ دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا۔ (مسلم بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب فضائل القرآن۔ پہلی فصل) 3۔ ابو سعید کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : جو شخص جمعہ کے دن سورة کہف پڑھے دو جمعوں کے درمیان اس کے لیے نور روشن ہوجاتا ہے۔ (بیہقی فی الدعوات الکبیر۔ بحوالہ مشکوۃ کتاب فضائل القرآن۔ تیسری فصل) 1۔ الف یعنی اللہ تعالیٰ کے مستحق حمد و ثنا ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے ایسی کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے مطالب صاف صاف بیان کرتی ہے نہ اس کے مطالب میں کوئی پیچ و خم ہے اور نہ اس کے انداز بیان میں کوئی پیچیدگی یا الجھاؤ ہے۔
Top