Tafseer-e-Baghwi - Al-Maaida : 28
لَئِنْۢ بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَكَ لِتَقْتُلَنِیْ مَاۤ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیْكَ لِاَقْتُلَكَ١ۚ اِنِّیْۤ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ
لَئِنْۢ بَسَطْتَّ : البتہ اگر تو بڑھائے گا اِلَيَّ : میری طرف يَدَكَ : اپنا ہاتھ لِتَقْتُلَنِيْ : کہ مجھے قتل کرے مَآ اَنَا : میں نہیں بِبَاسِطٍ : بڑھانے والا يَّدِيَ : اپنا ہاتھ اِلَيْكَ : تیری طرف لِاَقْتُلَكَ : کہ تجھے قتل کروں اِنِّىْٓ : بیشک میں اَخَافُ : ڈرتا ہوں اللّٰهَ : اللہ رَبَّ : پروردگار الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
اور اگر تو مجھے قتل کرنے کیلئے مجھ پر ہاتھ چلائے گا تو میں تجھ کو قتل کرنے کیلئے تجھ پر ہاتھ نہیں چلاؤں گا۔ مجھے تو خدائے رب العالمین سے ڈرلگتا ہے۔
آیت نمبر 30, 29, 28 تفسیر : (لئن م بسطت الی یدک لتقتلنی ماانا بباسط یدی الیک لاقتلک انی اخاف اللہ رب العلمین) (اگر تو ہاتھ چلائے گا) میری طرف مارنے کو میں نہ ہاتھ چلائوں گا تجھ پر مارنے کو میں ڈرتا ہوں اللہ سے جو پروردگار ہے سب جہان کا) ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ ہابیل اپنے بھائی سے زیادہ طاقتور تھے لیکن ان کو یہ شرم آئی کہ میں اپنے بھائی پر ہاتھ کیسے اٹھائوں اور شریعت میں یہ جائز ہے کہ کسی کو قتل کیا جارہا ہو تو وہ ثواب کے لیے مزاحمت نہ کرے جیسا کہ حضرت عثمان ؓ نے کیا۔ مجاہد (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ نے اس وقت یہ بات فرض کی تھی کہ کوئی شخص کسی کو قتل کرنے لگے تو وہ بصر کرے مزاحمت نہ کرے۔ (انی ارید ان تبوئ) (میں چاہتا ہوں کہ تو حاصل کرے) تو لوٹے اور بعض نے کہا تو اٹھائے ( باثمی و الملک) (میرا گناہ اور اپنا گناہ) یعنی میرے قتل کا گناہ اپنے دیگر گناہوں کے ساتھ جو اس سے پہلے تو کرچکا ہے۔ یہ اکثر مفسرین کا قول ہے اور مجاہد (رح) فرماتے ہیں کہ آیت کا معنی یہ ہے کہ میرا ارادہ ہے کہ تجھ پر میری خطائوں کا بھی بوجھ ہو جب تک مجھے قتل کرے گا اور اپنے گناہ اس کے علاوہ تو اس طرح تو میرا خون اور گناہ دونوں اٹھائے گا اور بعض نے کہا مطلب یہ ہے کہ تو میرے قتل کا گناہ اور اپنی اس نافرمانی کا گناہ بھی حاصل کرے جس کی وجہ سے تیری قربانی قبول نہیں ہوئی یا اپنے حسد کا گناہ بھی حاصل کرے۔ اگر یہ اعتراض ہو کہ ہابیل نے یہ کیسے کہہ دیا کہ میرا ارادہ ہے کہ تو میرے اور اپنے گناہ کو حاصل کرے حالانکہ گناہ کا ارادہ کرنا تو جائز نہیں ہے تو جواب یہ ہے کہ یہ حقیقتاً ارادہ ان کا ارادہ نہیں تھا لیکن جب ان کو یقین ہوگیا کہ بھائی مجھے ہر حال میں قتل کرے گا تو ثواب کی امید پر انہں نے اپنے نفس کو راضی کرلیا تو مجازاً یوں کہا جاسکتا ہ کے کہ انہوں نے اپنے قتل کا ارادہ کیا اگرچہ حقیقتاً یہ مراد نہیں تھی اور بعض نے کہا کہ اس کا معنی یہ ہے کہ میرا ارادہ ہے کہ تو میر یقتل کی سزا کو حاصل کرے تو یہ صحیح ارادہ ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق ہے اور یہ قتل کا ارادہ نہیں بلکہ قتل کی سزا و گناہ کا ارادہ ہے ۔ ( فتکون من اصحاب النار وذلک جزائو الالظلمین) ( پھر تو ہوجائے دوزخ والوں میں سے اور یہی ہے ظالموں کی سزا) (فطوعت لہ نفسہ) ( پھر راضی کیا اس کو اس کے نفس نے) یعنی اس کو تیار کیا اور اس کی مدد کی اور ابھارا ( قتل اخیہ) ( اپنے بھائی کے خون پر) اپنے بھائی کے قتل کرنے میں اور مجاہد کتے ہیں کہ اس کو نفس نے خوب ابھارا اور قتادہ (رح) فرماتے ہیں نفس نے بھائی کا قتل بڑا خوبصورت کرکے دکھایا اور یمان کہتے ہیں کہ اس کو آسان بتلایا یعنی اس کے نفس نے اس بات پر آمادہ کیا کہ تیرے بھائی کا قتل بہت آسان ہے۔ پھر قابیل نے اپنے بھائی کو قتل کردیا جب اس نے پکا ارادہ کیا تو قتل کا طریقہ معلوم نہیں تھا تو ابن جریج فرماتے ہیں کہ شیطان انسانی شکل میں آیا اور ایک پرندہ پکڑ کر اس کو ایک پتھر پر رکھ کر دوسرا پتھر اٹھا کر اس کے سر پر مارا وہ مرگیا۔ قابیل نے یہ طریقہ سیکھ لیا اور ہابیل کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر پھاڑ دیا۔ بعض نے کہا ہابیل قتل کے وقت مطیع تھے اور بعض نے کہا وہ سوئے ہوئے تھے اس نے غفلت میں ان کا سر پھاڑ کر قتل کردیا اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ( فقتلہ فاصبح من الخسرین) ( پھر اس کو مار ڈالا سو ہوگیا نقصان اٹھانے والوں میں)
Top