Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 28
لَئِنْۢ بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَكَ لِتَقْتُلَنِیْ مَاۤ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیْكَ لِاَقْتُلَكَ١ۚ اِنِّیْۤ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ
لَئِنْۢ بَسَطْتَّ : البتہ اگر تو بڑھائے گا اِلَيَّ : میری طرف يَدَكَ : اپنا ہاتھ لِتَقْتُلَنِيْ : کہ مجھے قتل کرے مَآ اَنَا : میں نہیں بِبَاسِطٍ : بڑھانے والا يَّدِيَ : اپنا ہاتھ اِلَيْكَ : تیری طرف لِاَقْتُلَكَ : کہ تجھے قتل کروں اِنِّىْٓ : بیشک میں اَخَافُ : ڈرتا ہوں اللّٰهَ : اللہ رَبَّ : پروردگار الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
اگر تم مجھے قتل کرنے کے لیے مجھ پر دست درازی کرو گے تو میں تم کو قتل کرنے کے لیے تم پر دست درازی کرنے والا نہیں۔ میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں
لَئِنْم بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَکَ لِتَقْتُلَنِیْ مَآ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیْکَ لِاَقْتُلَکَ ج اِنِّیْٓ اَخَافُ اللہ َ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ اِنِّیْ اُرِیْدُ اَنْ تَبُوْٓئَ بِاِثْمِیْ وَ اِثْمِکَ فَتَکُوْنَ مِنْ اَصْحٰبِ النَّارِ ج وَذٰلِکَ جَزٰٓؤُا الظّٰلِمِیْنَ ۔ (المائدہ : 28۔ 29) ” اگر تم مجھے قتل کرنے کے لیے مجھ پر دست درازی کرو گے تو میں تم کو قتل کرنے کے لیے تم پر دست درازی کرنے والا نہیں۔ میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں “۔ ” میں چاہتا ہوں کہ میرا گناہ اور اپنا گناہ دونوں تم ہی لے کر لوٹو اور جہنم والوں میں سے بنو۔ یہی سزا ہے ظالموں کی “۔ اگر تم میرے بھائی ہو کر بھی صرف اتنی بات پر کہ تمہاری قربانی قبول نہیں ہوئی اور میری قربانی قبول کرلی گئی اور تم میرے قتل کے درپے ہوگئے ہو تو دیکھو اگر تم مجھ پر دست درازی کرو گے ‘ تاکہ تم مجھے قتل کردو تو میں تمہیں قتل کرنے کے لیے تم پر دست درازی نہیں کروں گا۔ یعنی میں اس رشتے کو کبھی نہیں بھول سکتا جو میرے اور تیرے درمیان ہے۔ ایک تو یہ کہ تم میرے بھائی ہو ‘ دوسرا یہ کہ میرے اور تمہارے درمیان ایک دین کا رشتہ ہے اور تیسری بات یہ کہ بغیر کسی وجہ کے کوئی انسان کسی انسان کو قتل نہیں کرسکتا۔ تم اگر بغیر کسی وجہ کے میرے قتل کا ارادہ رکھتے ہو تو میں تمہارے قتل کا ارادہ نہیں کرسکتا۔ البتہ ! اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی آدمی اگر کسی دوسرے پر قتل کے ارادے سے حملہ آور ہو تو وہ اپنا دفاع بھی نہ کرے ‘ یہ تو سراسر اپنے قتل میں معاون بننے کے مترادف ہے۔ کسی شریعت نے اس کی اجازت نہیں دی۔ یہاں جو نہایت حکمت کی بات بیان کی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ اگر کسی کے بارے میں یہ خبر ہو کہ وہ آپ کے قتل کا ارادہ رکھتا ہے تو محض اس کے ارادہ کرنے سے آپ کے لیے اس کا قتل مباح نہیں ہوجاتا۔ آپ اس سے بچنے کی تدبیر تو کرسکتے ہیں ‘ لیکن اس خیال سے کہ وہ آپ کو قتل نہ کر دے ‘ آپ اسے پہلے قتل کردیں ‘ اس کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے زمانہ میں کچھ مسلمانوں نے چند خوارج کو باتیں کرتے ہوئے سنا کہ وہ حضرت علی ( رض) کے قتل کی قسمیں کھا رہے تھے کہ اگر ہمیں موقع ملا تو ہم انھیں قتل کر کے چھوڑیں گے۔ مسلمان انھیں پکڑ کر حضرت علی ( رض) کی خدمت میں لے گئے اور بتلایا کہ یہ آپ کے قتل کا ارادہ کر رہے تھے ‘ اس لیے آپ انھیں قتل کروا دیں۔ آپ نے فرمایا کہ میں کس جرم میں انھیں قتل کروا دوں ؟ کیا انھوں نے واقعی مجھے قتل کردیا ہے ؟ اندازہ فرمایئے کہ اس آیت میں بھی پہلی نسل انسانی کا ایک شخص کس قدر پر حکمت باتیں کہہ رہا ہے۔
Top