Bayan-ul-Quran - Al-Ghaafir : 44
فَسَتَذْكُرُوْنَ مَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ١ؕ وَ اُفَوِّضُ اَمْرِیْۤ اِلَى اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ
فَسَتَذْكُرُوْنَ : سو تم جلد یاد کروگے مَآ اَقُوْلُ : جو میں کہتا ہوں لَكُمْ ۭ : تمہیں وَاُفَوِّضُ : اور میں سونپتا ہوں اَمْرِيْٓ : اپنا کام اِلَى اللّٰهِ ۭ : اللہ کو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ بَصِيْرٌۢ بِالْعِبَادِ : دیکھنے والا بندوں کو
تو عنقریب تم یاد کرو گے (یہ باتیں) جو میں تم سے کہہ رہا ہوں اور میں تو اپنا معاملہ اللہ کے حوالے کرتا ہوں اللہ یقینا اپنے بندوں کو دیکھ رہا ہے
آیت 44 { فَسَتَذْکُرُوْنَ مَآ اَقُوْلُ لَکُمْ } ”تو عنقریب تم یاد کرو گے یہ باتیں جو میں تم سے کہہ رہا ہوں۔“ میں جانتا ہوں کہ تم میری ان باتوں کو نہیں مانو گے۔ مجھے یہ بھی یقین ہے کہ تم موسیٰ علیہ السلام ٰ اور اس کی قوم کے خلاف اپنی ساری چالیں چل کر رہو گے۔ مگر یاد رکھو ! اگر تم نے ایسا کیا تو یقینا تم اپنی تباہی اور بربادی کو دعوت دو گے۔ بہر حال میری یہ باتیں تمہیں اس وقت ضرور یاد آئیں گی جب تمہارا بھیانک انجام تمہارے سامنے آن کھڑا ہوگا۔ { وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْٓ اِلَی اللّٰہِ } ”اور میں تو اپنا معاملہ اللہ کے حوالے کرتا ہوں۔“ یہ مرد مومن کی تقریر کے اختتامی الفاظ ہیں۔ اس جملے کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ فرعون کے دربار میں کلمہ حق بلند کرنے کے بعد مرد مومن ذہنی طور پر کسی بھی سزا کا سامنا کرنے کے لیے تیار تھے۔ انہیں اندازہ تھا کہ اس ”گستاخی“ کے بعد انہیں قتل کردیا جائے گا۔ چناچہ انہوں نے اپنی تقریر کا اختتام اس خوبصورت جملے پر کیا۔ سورة یٰسٓ میں بھی ایک مرد مومن کی ”حق گوئی و بےباکی“ کا ذکر ہوا ہے ‘ جس نے اپنی قوم کو رسولوں کی پیروی کرنے کا مشورہ دیا تھا اور اپنے ایمان کا ڈنکے کی چوٹ اعلان کیا تھا۔ اس ”اعلانِ بغاوت“ کے نتیجے میں اس کو اسی لمحے شہید کردیا گیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اسی وقت اسے جنت میں داخل فرما دیا تھا۔ قرآن حکیم میں اس کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں : { قَالَ یٰـلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَ۔ بِمَا غَفَرَ لِیْ رَبِّیْ وَجَعَلَنِیْ مِنَ الْمُکْرَمِیْنَ۔ } یٰسٓ ”اس نے کہا کاش ! میری قوم کو معلوم ہوجاتا میرے رب نے جس طرح میری مغفرت فرمائی ہے اور جس طرح مجھے باعزت لوگوں میں شامل کرلیا ہے !“ مومن ِآلِ فرعون نے بھی اپنی شہادت کے امکان کو دیکھتے ہوئے کمال اطمینان سے اپنا معاملہ اللہ کو سونپ دیا۔ { اِنَّ اللّٰہَ بَصِیْرٌم بِالْعِبَادِ } ”اللہ یقینا اپنے بندوں کو دیکھ رہا ہے۔“ اسے یقین تھا کہ اللہ اپنے بندوں کے حالات سے خوب واقف ہے ‘ وہ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ہے۔ وہ جسے چاہے ظلم و زیادتی کا شکار ہونے سے بچا سکتا ہے۔
Top