Bayan-ul-Quran - Al-Hajj : 60
ذٰلِكَ١ۚ وَ مَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوْقِبَ بِهٖ ثُمَّ بُغِیَ عَلَیْهِ لَیَنْصُرَنَّهُ اللّٰهُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ
ذٰلِكَ : یہ وَمَنْ : اور جو۔ جس عَاقَبَ : ستایا بِمِثْلِ : جیسے مَا عُوْقِبَ : اسے ستایا گیا بِهٖ : اس سے ثُمَّ : پھر بُغِيَ عَلَيْهِ : زیادتی کی گئی اس پر لَيَنْصُرَنَّهُ : ضرور مدد کریگا اسکی اللّٰهُ : اللہ اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَعَفُوٌّ : البتہ معاف کرنیوالا غَفُوْرٌ : بخشنے والا
یہ (مضمون) تو ہوچکا اور جو شخص (دشمن کو) اس قدر تکلیف پہنچا دے جس قدر (اس دشمن کی طرف سے) اس کو تکلیف پہنچائی گئی تھی (اور) پھر اس شخص پر زیادتی کی جاوے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کی ضرور امداد کرے گا (ف 3) اللہ تعالیٰ کثیر المغفرت ہے۔ (ف 4)
3۔ اگر یہ شخص بدلہ لینا چاہئے تو دنیا میں نصرت شرعیہ یقینی ہے، یعنی اجازت انتقام کی، اور اگر بدلا نہ لے تو آخرت میں نصرت حسیہ ضروری ہے، یعنی ظالم کی تعذیب۔ فائدہ : یہ رعایت مماثلت کا وجوب ہے معاملات معاشرت میں نہ کہ جہاد میں، نیز جو افعال ہر حال میں معصیت ہیں وہ اس عموم سے مستثنی ہیں۔ مثلا کوئی کسی کے والدین کو برا کہے تو عوض میں اس کے والدین کو برا کہنا جائز نہ ہوگا۔ 4۔ اوپر مومنین کے غالب اور کفار کے مغلوب ہونے کا بیان تھا۔ چونکہ مسلمانوں کی موجودہ بےسرو سامانی اور کفار کی عدد اور عدد میں فراوانی پر نظر کرنے پر اس میں ایک گونہ استبعاد تھا اس لئے آگے اپنی قدرت کاملہ کا بیان فرماتے ہیں۔ اور چونکہ جہلاء کفار کو اس مقام پر اپنے معبودین کے ناصر ہونے کا وہم ہوسکتا تھا، اور چونکہ یہ مضمون متضمن توحید ذاتی و صفاتی و افعال تھا، اور روئے سخن تھا مشرکین کی طرف جو کہ شرک میں مبتلا ہونے سے نعم الہیہ سے جحود کرتے تھے، اس لئے الم تر ان اللہ انزل سے لکفور تک اس مضمون کی قدرے تفصیل فرماتے ہیں۔
Top