Ruh-ul-Quran - Al-Hajj : 60
ذٰلِكَ١ۚ وَ مَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوْقِبَ بِهٖ ثُمَّ بُغِیَ عَلَیْهِ لَیَنْصُرَنَّهُ اللّٰهُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ
ذٰلِكَ : یہ وَمَنْ : اور جو۔ جس عَاقَبَ : ستایا بِمِثْلِ : جیسے مَا عُوْقِبَ : اسے ستایا گیا بِهٖ : اس سے ثُمَّ : پھر بُغِيَ عَلَيْهِ : زیادتی کی گئی اس پر لَيَنْصُرَنَّهُ : ضرور مدد کریگا اسکی اللّٰهُ : اللہ اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَعَفُوٌّ : البتہ معاف کرنیوالا غَفُوْرٌ : بخشنے والا
یہ بات یاد رکھو ! اور جس نے ویسا ہی بدلہ دیا جیسا کہ اس کے ساتھ کیا گیا ہے پھر اس پر زیادتی کی گئی تو اللہ اس کی ضرور مدد فرمائے گا، بیشک اللہ تعالیٰ بہت معاف کرنے والا بہت بخشنے والا ہے۔
ذٰلِکَ ج وَمَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَاعُوْقِبَ بِہٖ ثُمَّ بُغِیَ عَلَیْہِ لَیَنْصُرَنَّہُ اللّٰہُ ط اِنَّ اللّٰہَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ۔ (الحج : 60) (یہ بات یاد رکھو ! اور جس نے ویسا ہی بدلہ دیا جیسا کہ اس کے ساتھ کیا گیا ہے پھر اس پر زیادتی کی گئی تو اللہ اس کی ضرور مدد فرمائے گا، بیشک اللہ تعالیٰ بہت معاف کرنے والا بہت بخشنے والا ہے۔ ) ایک اہم اعلان ذٰلِکَ : پورے جملے کا قائم مقام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس سے پہلے جو کچھ کہا گیا ہے اسے اچھی طرح سمجھ لو اور پلے باندھ لو۔ یہاں بھی اسی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ اس سے پہلے کی آیتوں میں مہاجرین فی سبیل اللہ کے فضائل بیان کیے گئے ہیں اور ان پر اللہ تعالیٰ کی نوازشات کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ گویا یہ تأ ثر دیا گیا ہے کہ جنھیں تم لوگ نہایت حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہو اور انھیں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کے باعث اس قدر اذیت دے رہے ہو کہ ان کا اپنے وطن میں رہنا مشکل ہوگیا ہے۔ اب ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ وہ اپنے ایمان اور جان ومال کی حفاظت کے لیے ہجرت کرجائیں۔ وہ تمہاری نگاہوں میں چاہے کیسے ہی بےیارو مددگار ہوں لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ کی بارگاہ میں وہی بارپانے کے قابل ہیں اور اللہ کی عنایات اور نوازشات انھیں پر نچھاور ہوتی ہیں۔ ان کے اس مقام و مرتبہ اور اللہ کے یہاں ان کے تقرب کو جان لینے کے بعد تمہیں اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ تم نے ان پر جو بیشمار مصائب توڑے ہیں اور انھیں نہایت گہرے زخم لگائے ہیں اگر ہجرت کے سفر کے بعد کہیں ان کے زخم ٹیس دینے لگیں اور انھوں نے تم سے مظالم کے انتقام کے سلسلے میں کوئی اقدام کرڈالا اور وہ اقدام بالکل اسی سطح پر رہاجس سطح کے تم نے انھیں دکھ پہنچائے تھے تو اللہ ان سے جواب طلبی نہیں کریں گے کیونکہ انتقام لینا ان کا حق ہے۔ لیکن تم نے یہ دیکھ کر کہ یہ گرے پڑے لوگ ہمارے منہ آنے کی جرأت کرنے لگے ہیں اور ہمیں سے پنجہ لڑانے کی جسارت کررہے ہیں۔ تو انھیں ہم ایسی مار ماریں اور ایسی سزا دیں کہ دوبارہ اس جسارت کا نام لینے کی بھی جرأت نہ کریں۔ تو یاد رکھو ! وہ بےیارومددگار لوگ نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی پشت پر ہے، تم اچھی طرح یہ بات سن لو وہ ان کی ضرور بالضرور مدد کرے گا۔ بعض اہل علم کا خیال ہے اور یہ خیال صحیح معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت کریمہ ہجرت کے وقت نازل ہوئی ہے۔ اس کے بعد مسلمان ہجرت کرکے جب مدینہ منورہ پہنچ گئے تو اسی بشارت کو آیت نمبر 39 اور 40 میں مزید کھول دیا گیا بلکہ پروردگار نے آیت نمبر 39 میں ان کی مدافعت کرنے کو اپنی ذمہ داری بنا لیا۔ چناچہ بعد کے حالات اس بات کے شاہد ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی افرادی قوت اور اسلحی صلاحیت کم ہونے کے باوجود ہر میدان میں ان کی مدد فرمائی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چند ہی سالوں میں پورا جزیرہ عرب اسلام کی آغوش میں آگیا۔ ایک اسلوب وَمَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَاعُوْقِبَ بِہٖ : ” اور جس نے ویسا ہی بدلہ دیا جیسا اس کے ساتھ کیا گیا “۔ اس میں ملتے جلتے الفاظ صنعت تجانس اور مماثلت کے اسلوب پر ہیں اور یہ اسلوب عربی زبان میں عام ہے۔ جسے قرآن کریم نے کئی جگہ استعمال کیا ہے۔ مثلاً جزاء سیئۃٍ سیئۃٌ مثلھا حالانکہ برائی کا بدلہ برائی نہیں ہوتا بلکہ انصاف ہوتا ہے۔ لیکن یہاں مماثلت کے اسلوب سے کام لیا گیا ہے جیسے عرب شاعر کہتا ہے۔ دِنَّا ھُم کَمَا دَانُوا عفو غفور کے حوالے سے ایک اہم ہدایت اِنَّ اللّٰہَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ : ” بیشک اللہ بہت درگزر کرنے والا اور بہت بخشنے والا ہے “۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کو کسی حد تک انتقام لینے کی اجازت دے کر یہ نوید سنائی جارہی ہے کہ اگر کہیں تم سے کوئی کمی بیشی بھی ہوگئی تو اللہ درگزر کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔ لیکن ساتھ ہی مسلمانوں کو یہ تصور بھی دیا جارہا ہے کہ اب جبکہ ہجرت کے بعد تم ایک مضبوط امت بن کر اٹھو گے تو ممکن ہے کہ قریش کے مظالم کی یاد تمہیں کسی عاجلانہ اقدام پر اکسانے کی کوشش کرے۔ تو بہتر یہ ہے کہ تم ایسے کسی بھی اقدام سے گریز کرو اگرچہ تمہیں اس کا حق ہے کیونکہ تم پر بہت ظلم کیے گئے ہیں لیکن ابھی مناسب وقت نہیں آیا جب وہ موزوں وقت آئے گا تو اللہ تعالیٰ تمہیں خود اس کا حکم دے گا ابھی تمہارے لیے عفو و درگزر کی پالیسی اختیار کرنا بہتر ہے۔ اور شاید اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ تم اگر اپنے انتقام میں کسی کو ایسی سزا دے ڈالو جو انصاف کے مطابق ہو تو تمہیں اس کی اجازت ہے لیکن چونکہ تمہارا پروردگار نہایت درگزر کرنے والا اور بخشنے والا ہے وہ قریش اور دیگر مشرکین کے تمرد اور سرکشی کے باعث ان پر عذاب نازل نہیں فرماتا بلکہ انھیں مہلت عمل دے رہا ہے اس کے ” عفو “ ہونے کا یہ تقاضا ہے کہ وہ مجرموں کو زیادہ سے زیادہ مہلت دے۔ تمہارے اخلاق میں بھی اللہ کی صفات کا عکس ہونا چاہیے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ تم انتقام لینے کی بجائے عفو درگزر کو اپنا طرز عمل بنائو۔
Top