Dure-Mansoor - Al-Hajj : 60
ذٰلِكَ١ۚ وَ مَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوْقِبَ بِهٖ ثُمَّ بُغِیَ عَلَیْهِ لَیَنْصُرَنَّهُ اللّٰهُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ
ذٰلِكَ : یہ وَمَنْ : اور جو۔ جس عَاقَبَ : ستایا بِمِثْلِ : جیسے مَا عُوْقِبَ : اسے ستایا گیا بِهٖ : اس سے ثُمَّ : پھر بُغِيَ عَلَيْهِ : زیادتی کی گئی اس پر لَيَنْصُرَنَّهُ : ضرور مدد کریگا اسکی اللّٰهُ : اللہ اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَعَفُوٌّ : البتہ معاف کرنیوالا غَفُوْرٌ : بخشنے والا
یہ بات یوں ہی ہوگی اور جو شخص اس قدر بدلہ لے، جس قدر اسے تکلیف پہنچائی گئی پھر اس پر زیادتی کی جائے اللہ تعالیٰ ضرور بالضرور اس کی مدد فرمائے گا۔ بیشک اللہ تعالیٰ معاف فرمانے والا اور بخشنے والا ہے
1۔ ابن ابی حاتم نے مقاتل (رح) سے آیت ذالک ومن عاقب الایۃ کے بارے میں روایت کیا کہ نبی ﷺ نے ایک فوجی دستہ بھیجا جبکہ محرم میں سے دو راتیں باقی تھیں۔ وہ مشرکین سے ملے تو مشرکین آپس میں کہنے لگے کہ محمد ﷺ کے اصحاب سے لڑو۔ مگر وہ تو شہر حرام یعنی عزت والے مہینے میں قتال کو حرام سمجھتے ہیں صحابہ کرام ؓ نے ان کو اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر قتال نہ کرنے کو کہا۔ کیونکہ وہ شہر حرام میں قتال کو حلال نہیں سمجھتے تھے مگر جو ان سے قتال شروع کرے تو پھر وہ بھی لڑتے ہیں مشرکین نے لڑنے کا آغاز کیا تو صحابہ کرام ؓ نے بھی ان سے لڑنے کو حلال جانا اور لڑنا شروع کردیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کی مدد فرمائی۔ 2۔ ابن المنذر نے ابن جریج (رح) سے آیت ذلک ومن عاقب کے بارے میں روایت کیا کہ مشرکین نے نبی ﷺ اور آپ کے اصحاب پر ایک دوسرے کی مدد کی۔ اور ان کو مکہ سے نکالاتو اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد کرنے کا وعدہ فرمایا اور قصاص میں بھی یہی حکم ہے۔ 3۔ ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت وان مایدعون من دونہ ہوالباطل سے مراد ہے شیطان (کہ وہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر شیطان کو پکارتے ہیں)
Top