Urwatul-Wusqaa - Al-Hajj : 60
ذٰلِكَ١ۚ وَ مَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوْقِبَ بِهٖ ثُمَّ بُغِیَ عَلَیْهِ لَیَنْصُرَنَّهُ اللّٰهُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ
ذٰلِكَ : یہ وَمَنْ : اور جو۔ جس عَاقَبَ : ستایا بِمِثْلِ : جیسے مَا عُوْقِبَ : اسے ستایا گیا بِهٖ : اس سے ثُمَّ : پھر بُغِيَ عَلَيْهِ : زیادتی کی گئی اس پر لَيَنْصُرَنَّهُ : ضرور مدد کریگا اسکی اللّٰهُ : اللہ اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَعَفُوٌّ : البتہ معاف کرنیوالا غَفُوْرٌ : بخشنے والا
جس کسی نے خود زیادتی نہیں کی بلکہ جتنی سختی اس کے ساتھ کی گئی تھی ٹھیک اتنی ہی بدلے میں اس نے کی اور پھر دشمن مزید زیادتی پر اتر آیا تو ضروری ہے کہ اللہ مظلوم کی مدد کرے اللہ یقینا معاف کرنے والا بخش دینے والا ہے
مدافعت میں برابر برابر کا اقدام کرلینے کی اجازت ہے : 60۔ زیر نظر آیت کا آدھا حصہ تو بالکل وہی ہے جو قبل ازیں سورة النحل 16 : 126 میں گزر چکا ہے اور لفظ (ذلک) زائد ہے لیکن اس کا ذکر پیچھے آیت 30 میں گزر چکا ہے کہ یہ جہاں کہیں بھی بیان ہوا ہے گزشتہ مضمون کا قائم مقام ہو کر بیان ہوا ہے گویا تاکید مزید کے لئے اس کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ رہی یہ بات کہ ” جتنی سختی اس کے ساتھ کی گئی ٹھیک اتنی سختی ہی اس کے بدلے میں کرنی چاہئے ۔ “ تو دراصل حکومت اسلامی کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی رعایا کے لوگوں کے فیصلے کرتے وقت اس اصول کو ملحوظ خاطر رکھے مدعی سے تحقیق کے بعد مدعی علیہ سے بھی تحقیق کرے اور اگر کوئی معاملہ ضرب شدید کا ہے تو اس ضرب کا خوب ملاحظہ کرکے اس کے بدلے میں اتنی ضرب ضارب پر لگائی جائے اور اسی طرح قتل کرنے کی جو صورت قاتل نے اختیار کی تھی بہتر ہے کہ وہی صورت اس کے ساتھ اختیار کرے اگر وہ ممکن ہو اور اگر ممکن نہ ہو یا کوئی بداخلاقی کی بات ہو تو اس کے عوض میں علیحدہ سزا بھی دی جاسکتی ہے لیکن اصل الاصول اس میں قتل کا عوض قتل ہے بشرطیکہ مقتول کے وارث دیت یا معافی پر رضا مند نہ ہوں اور اس آیت میں دراصل (جزآء سیئۃ سیئۃ مثلھا) ہی کا اصول ملحوظ رکھا گیا ہے لیکن اگر کسی فریق نے ایک بار اس کا بدلہ چکائے جانے کے بعد دوبارہ زیادتی کی توق اب اس نئے معاملہ کی نوعیت یہ ہوگی کہ ایک ان دونوں میں ظالم ہوگا اور دوسرا مظلوم اور اس طرح پہلا بدلہ چکانے والا بھی ظالم ہو سکتا ہے جب کہ پہلے بھی ظالم تھا تب ہی اس کو بدلہ چکانا پڑا اور یہ بھی ممکن ہے کہ جو پہلے مظلوم تھا اب وہ ظالم ٹھہرے اس طرح معاشرہ اسلامی ہو یا حکومت اسلامی دونوں کے لئے ہدایت ہے کہ وہ اس وقت ہونے والے مظلوم کا ساتھ دیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ مظلوم کا حامی و مددگار ہوتا ہے اور اسی کا حامی و مددگار ہونے کی تلقین بھی کرتا ہے اس طرح گویا اصول میں کوئی فرق نہ پڑا کیونکہ پہلے بھی مظلوم ہی کا ساتھ دینے کا حکم تھا اور اب بھی مظلوم ہی کا ساتھ دینے کا حکم ہے فرق صرف یہ ہے کہ تنازع اگر انہیں فریقین میں ہوگا تو ممکن ہے کہ اب کی بات ظالم مظلوم ہوچکا ہو اور مظلوم ظالم اور اس طرح قرآن کریم نے یہ بات کہہ کر (تم بغی علیہ) دشمنوں کی طرف اشارہ بھی کردیا کہ اگر مسلمانوں کے دشمن اس بات سے چڑ کر کہ مسلمانوں نے ہمارے خلاف اتنا قدم بھی کیوں اٹھایا جتنا کہ ہم پہلے اٹھا چکے تھے مزید تعدی کی کہ وہ آئندہ اپنی عزت وناموس کی حفاظت کے لئے ایسی جرات ہی نہ کریں تو کافروں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان کی اس ہیکڑی کو کبھی برداشت نہیں کرے گا اور نہ ہی ایسا ہونے دے گا کیونکہ اس کے قانون میں یہ بات داخل ہے کہ وہ ہمیشہ مظلوم ہی کی مدد کرتا ہے پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مسلمان اگر اس وقت مظلوم ہیں اور کفار اس پر طرح طرح کے ظلم ڈھا رہے ہیں تو آخر کب تک یقینا ایسا وقت بھی آئے گا کہ ان کو ان مظالم کا بدلہ دینا پڑے گا بلاشبہ اللہ رب العزت کے ہاں دیر ہے لیکن اندھیر نہیں ۔ رہی یہ بات کہ دیر کیوں ہے ؟ تو یہ بات ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ مہلت اللہ تعالیٰ نے کیوں لازم رکھی ہے ؟ دراصل تدریج امہال قانون خداوندی کا ایک حصہ ہے ۔ ” بلاشبہ اللہ معاف کردینے والا ‘ بخش دینے والا ہے “ یہ اس لئے فرمایا کہ اگر کسی ظالم نے ظلم کیا اس لئے کہ اس وقت اس میں ظلم کرنے کی طاقت وقوت موجود تھی اور مظلوم نے اس کو برداشت کرلیا تو یقینا ایک نیکی اور خوبی کی بات ہے اور اس پر دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر طاقتور اور کون ہو سکتا ہے لیکن وہ اپنی ساری طاقت وقوت کے باوجود معاف کردینے والا اور بخش دینے والا ہے اور اس کی یہ صفت اگر کسی دوسرے نے اختیار کی تو گویا اس نے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرلی اور اس طرح لوگوں پر یہ بات واضح کردی کہ عفو درگزر کرنا اللہ تعالیٰ کی ان صفات میں سے ہے جن کو حاصل کرنے اور اپنانے سے آدمی رضائے الہی کا مستحق ہوتا ہے نہ کہ عتاب کا ۔
Top