Tafseer-e-Majidi - Al-Hajj : 60
ذٰلِكَ١ۚ وَ مَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوْقِبَ بِهٖ ثُمَّ بُغِیَ عَلَیْهِ لَیَنْصُرَنَّهُ اللّٰهُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ
ذٰلِكَ : یہ وَمَنْ : اور جو۔ جس عَاقَبَ : ستایا بِمِثْلِ : جیسے مَا عُوْقِبَ : اسے ستایا گیا بِهٖ : اس سے ثُمَّ : پھر بُغِيَ عَلَيْهِ : زیادتی کی گئی اس پر لَيَنْصُرَنَّهُ : ضرور مدد کریگا اسکی اللّٰهُ : اللہ اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَعَفُوٌّ : البتہ معاف کرنیوالا غَفُوْرٌ : بخشنے والا
یہ (بات تو ہوچکی) اور جو شخص اسی قدر تکلیف پہنچائے جتنی تکلیف اسے پہنچائی گئی اور پھر اس پر زیادتی کی جائے،103۔ تو اللہ اس کی ضرور مدد کرے گا،104۔ بیشک اللہ بڑا معاف کرنے والا بڑا بخشنے والا ہے،105۔
103۔ یعنی ایک شخص پر اس کے دشمن نے ظلم کیا اور اس نے اپنا انتقام لے لیا، اور معاملہ برابر سرابر ہوگیا۔ لیکن اس پر بھی اس مظلوم پر از سرنو زیادتی شروع ہوئی۔ 104۔ (دنیا میں نصرت شرعی ہے، آخرت میں نصرت معنوی ہے) ” اور یہ جو اوپر قید لگائی گئی، (آیت) ” بمثل ماعوقب “ الخ سو اس مماثلت کی مراعاۃ مظلوم کے اجتہاد پر ہے جس میں اس نے اپنی وسعت حتی الامکان مبذول کی ہو اور اس پر بھی اگر مماثلت سے قدرے بیشی ہوجائے جو بوجہ غایت غموض وخفاء کے ضبط میں نہ آسکے تو وہ موجب مؤاخذہ مخل وعدۂ نصرت نہیں “۔ (تھانوی (رح) ” یہ رعایت مماثلت کو وجوب معاملات معاشرت میں ہے نہ کہ جہاد میں، چناچہ ادلہ شرعیہ سے یہ امر ظاہر ومشہور ہے۔ اور نیز جو افعال ہر حال میں معصیت ہیں اور اس عموم سے مستثنی ہیں۔ مثلا کوئی کسی کے والدین کو برا کہے تو عوض میں اس کے والدین کو برا کہنا جائز نہ ہوگا “۔ (تھانوی (رح ) 105۔ (سو وہ خفی ونازک دقائق پر گرفت نہیں کرتا)
Top