Mafhoom-ul-Quran - Al-Hajj : 60
ذٰلِكَ١ۚ وَ مَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوْقِبَ بِهٖ ثُمَّ بُغِیَ عَلَیْهِ لَیَنْصُرَنَّهُ اللّٰهُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ
ذٰلِكَ : یہ وَمَنْ : اور جو۔ جس عَاقَبَ : ستایا بِمِثْلِ : جیسے مَا عُوْقِبَ : اسے ستایا گیا بِهٖ : اس سے ثُمَّ : پھر بُغِيَ عَلَيْهِ : زیادتی کی گئی اس پر لَيَنْصُرَنَّهُ : ضرور مدد کریگا اسکی اللّٰهُ : اللہ اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَعَفُوٌّ : البتہ معاف کرنیوالا غَفُوْرٌ : بخشنے والا
یہ ( بات اللہ کی طرف سے مقرر ہوچکی ہے) کہ ایک شخص دوسرے کو اتنی ہی ایذا دے جتنی ایذا اس کو دی گئی پھر اگر اس پر زیادتی کی جائے تو اللہ اس کی مدد کرے گا بیشک اللہ معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔
اللہ کی حاکمیت اور اللہ کے لیے انسان کی بندگی تشریح : اخلاقیات کا ایک بہت بڑا سبق اللہ تعالیٰ دہرا رہے ہیں۔ وہ یہ کہ مسلمان کے لیے اصول بنا دیا گیا ہے کہ ظلم و زیادتی کا جواب اتنا ہی دیں جتنی زیادتی ان پر کی گئی ہو۔ کیونکہ اللہ ظلم کو پسند نہیں کرتا اس لیے اس نے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ مظلو موں کی مدد ضرور کرتا ہے۔ یہ وعدہ اور یہ اخلاقی اصول کسی معمولی ہستی کے بنائے ہوئے نہیں بلکہ یہ اس رب العلمین کے بنائے ہوئے ہیں جس نے انسان کو پیدا کیا پھر اسکی نشوونما اور آرام و سکون کے لیے آسمانوں کو بلند کیا زمین بنائی اس میں ہر قسم کے چرند ‘ پرند ‘ حیوانات ‘ نباتات ‘ چاند، سورج، ستارے ‘ ندی نالے، دریا، سمندر ‘ پہاڑ پھول، پھل، یہ تمام چیزیں انسان کے لئے پیدا کیں اور اس میں اسے اختیار دیا پھر بھی انسان اس قدر ناشکرا ‘ جاہل اور ناعاقبت اندیش ہے کہ بجائے اللہ کا شکر ادا کرنے کے اور دوسری تیسری ایسی چیزوں کی عبادت کرتا ہے جو خود اللہ کی ہی بنائی ہوئی ہیں اور اللہ کی ہی بنائی ہوئی تقدیر اور حکم کے پابند ہیں اللہ نے ان تمام گمراہیوں اور گندگیوں سے انسان کو بچانے کے لیے فرشتوں میں سے ایک فرشتے جبرائیل (علیہ السلام) کو اپنے پیغام رسولوں تک پہنچانے کے لیے چن لیا اور اپنے بندوں میں سے مختلف بستیوں کے لیے مختلف انسانوں کو پیغمبر رسول اور نبی کی حیثیت سے چن لیا تاکہ وہ اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچائیں اور لوگوں کو ایسے ایسے اخلاقی ‘ معاشی ‘ معاشرتی اور تہذیبی اصول بتا دیں کہ لوگ اپنی زندگیاں انتہائی پاکیزہ اور بہترین طریقوں سے گزار کر آخرت میں سرخرو ہو کر جہنم کے عذاب سے بچ کر جنت کے انعامات سے مالا مال ہو سکیں۔ جیسا مذہب اسلام ہے اور اس کے اصول و ضوابط ہیں کسی بھی دوسرے مذہب کے اب تک ہوئے ہیں نہ ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ تمام آیات میں اپنے کچھ ناموں کی وضاحت کی ہے اور اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ بندہ اللہ کا نائب بنا کر زمین میں علم و ارادہ کی یک حد تک طاقت دے کر بھیجا گیا ہے۔ اس لیے اللہ فرماتا ہے کہ میں معاف کرنے والا بخشنے والا ہوں تو بندوں کو بھی معاف کرنا چاہیے ایک دوسرے کو یعنی اللہ معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اللہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔ بندوں کو بھی چاہیے کہ نیکی کی راہ اختیار کریں۔ اللہ سب سے بڑا اور سب سے بلند ہے۔ اس لیے وہ انسان کو متقی اور اخلاقی کردار کی بلندیوں پر دیکھنا پسند کرتا ہے۔ اللہ مہربان اور خبردار ہے۔ انسان کا مہربان ہونا اور شیطان سے خبردار ہونا اسے پسند ہے۔ اللہ بےنیاز ہے اور تمام تعریفوں کے قابل ہے۔ انسان کو اللہ کی تعریف اور اس کی نیاز مندی میں گم ہو کر اس کی قربت اور جھوٹے خدائوں کی پناہ سے شیطان کی ترغیبات سے اپنے آپ کو بالکل دور رکھنا چاہیے۔ یہی اللہ کو پسند ہے۔ اللہ شفقت کرنے والا مہربان ہے۔ بندے کو بھی اپنی زندگی کا اصول شفقت اور مہربانی بنا لینا چاہیے۔ یہی اللہ کو پسند ہے۔ اللہ زبردست اور غالب ہے۔ سننے اور دیکھنے والا ہے۔ اس لیے ہر وقت ہر لمحہ اور ہر عمل پر سوچتے رہنا چاہیے کہ وہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ نہ تو ہم اسکی نظر سے بچ سکتے ہیں اور نہ ہی اس کی پکڑ سے بچ سکتے ہیں اور نہ وہ بےانصافی کرے گا۔ تو جب یہ سب کچھ معلوم ہوچکا تو کیوں نہ وہی راستہ وہی اصول ‘ وہی قانون اور وہی دین اپنایا جائے۔ اور اس اللہ کی عبادت کی جائے جس نے ہمیں پیدا کیا اور جس کے پاس ہم مرنے کے بعد جائیں گے اور جو ہمیں جنت یا دوزخ میں داخل کر دے گا۔ اب کون بیوقوف ہے جو اس عارضی زندگی کے لیے کفر و شرک اور گناہوں کی زندگی کو پسند کرے گا۔ اب تو علم و حکمت اور سائنسی تجربات ‘ تحقیقات اور ایجادات حق کے راستوں کو کھول رہی ہیں جو انسانوں کو اللہ کی راہ کی طرف لے جا رہی ہیں۔ اور کفر و شرک کے پردے خود بخود چاک ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اور مسلمانوں کی عبادات اعتقادات روز روشن کی طرح دنیا کے سامنے چلے آرہے ہیں۔ اسلام دین فطرت ہے۔ یعنی اس کا کوئی اصول نہ تو مشکل ہے اور نہ ہی ناقابل عمل ہے۔ توحید : تو انسان کو اس قدرت مضبوط خود اعتماد ‘ بےخوف اور نڈر بنا دیتی ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت توحید کے ماننے والے کو زیر نہیں کرسکتی۔ مثلاً نماز ‘ پاکیزگی ڈسپلن ‘ سکون اور اتحاد و یقین کی طرف لے جاتی ہے۔ زکوٰۃ ‘ لالچ ‘ ذخیرہ اندوزی ‘ بےرحمی اور خود غرضی سے بچا کر انسان کو بہترین انسان بناتی ہے۔ روزہ : خود پر کنٹرول ‘ صحت و صفائی روحانی اور جسمانی دونوں طرح کی نعمت کا ذریعہ ہے۔ حج : یہ آخری رکن ہے جو زندگی میں ایک دفعہ کرنے کا حکم ہے مگر یہ عبادت انسان میں اس قدر روحانی ترقی پیدا کردیتی ہے کہ بندہ اصل میں اللہ کا ہی فرمانبردار بندہ بن کر زندگی گزارنے لگتا ہے اور یوں نیابت الٰہی کا حق ادا کر کے جنت کا وارث بن جاتا ہے۔ اور سورت الحج کا لب لباب بھی یہی ہے۔ ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان (علامہ اقبال) مومن کا مطلب ہے ایک ایسا انسان جو ہر وقت حرکت و عمل میں مصروف رہتا ہے۔ کاہل اور بےکار ہو کر بیٹھتا نہیں۔ مومن کا کلام اور اس کا عمل دونوں اللہ کی ذات کا ثبوت ہوتے ہیں۔ اس کے منہ سے اللہ کے وجود کے خلاف کوئی کلمہ نہیں نکلتا۔ پھر مسلم کا کردار ‘ عمل اور عقیدہ اتنا پر اثر ہوتا ہے کہ اس کو دیکھ کر ہر کوئی اثرلیتا ہے کہ وہ اللہ کی ذات کا قائل ہوجاتا ہے یہ ہے ایک مسلم کی شان۔ الحمدللہ سورة الحج اور سترھواں پارہ بھی مکمل ہوگیا۔
Top