بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Dure-Mansoor - Al-Maaida : 1
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ١ؕ۬ اُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ اِلَّا مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَحْكُمُ مَا یُرِیْدُ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) اَوْفُوْا : پورا کرو بِالْعُقُوْدِ : عہد۔ قول اُحِلَّتْ لَكُمْ : حلال کیے گئے تمہارے لیے بَهِيْمَةُ : چوپائے الْاَنْعَامِ : مویشی اِلَّا : سوائے مَا : جو يُتْلٰى عَلَيْكُمْ : پڑھے جائینگے (سنائے جائینگے تمہیں غَيْرَ : مگر مُحِلِّي الصَّيْدِ : حلال جانے ہوئے شکار وَاَنْتُمْ : جبکہ تم حُرُمٌ : احرام میں ہو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يَحْكُمُ : حکم کرتا ہے مَا يُرِيْدُ : جو چاہے
اے ایمان والو ! اپنے عہد کو پورا کرو حلال کیے گئے تمہارے لیے چوپائے انعام سے، مگر وہ جن کے بارے میں تمہیں بتادیا جائے گا اس حال میں کہ جس وقت تم احرام میں ہو شکار کو حلال کرنے والے نہ ہو بیشک اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے حکم فرماتا ہے۔
(1) ابن عباس ؓ سے نقل کرتے ہیں کہ لفظ آیت اوفوا بالعقود یعنی عہد و پیمان کو پورا کرو جو اللہ تعالیٰ نے حلال فرمایا (اس کو حلال جانو) اور جو اللہ تعالیٰ نے حرام فرمایا (اس کو حرام جانو) اور جو (ا اللہ تعالیٰ نے) فرض فرمایا اور جو اللہ تعالیٰ نے سارے قرآن میں حدیں مقرر فرمائیں نہ دھوکہ کرو اور نہ وعدہ کو توڑو۔ (2) ابن جریر اور ابن منذر نے قتادہ سے لفظ آیت اوفوا بالعقود کے بارے میں روایت نقل کی کہ عقود سے مراد دور جاہلیت کا معاہدہ سے ہم کو یہ ذکر کیا گیا کہ نبی ﷺ فرمایا کرتے تھے جاہلیت کے عہد و پیمان کو پورا کرو اور اسلام میں کوئی نیا معاہدہ نہ کرو۔ (3) عبدالرزاق اور عبد بن حمید نے قتادہ ؓ سے نقل کیا کہ لفظ آیت اوفوا بالعقود میں عقد سے مراد ہے عہد اور اس سے زمانہ جاہلیت کے معاہدے مراد ہیں۔ (4) عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن منذر نے عبد اللہ بن عبیدہ (رح) سے روایت کیا کہ عقود کی پانچ قسم ہیں۔ ایمان کا عقد، نکاح کا عقد، بیع کا عقد، وعدہ کا عقد اور لوگوں کے آپس میں معاہدے۔ (5) ابن جریر نے زید بن اسلم (رح) سے اس آیت کے بارے میں نقل کیا ہے عقود پانچ ہیں : عقد، ایمان، عقد نکاح، خریدو فروخت کا عقد، کھانے کا عقد، عہد اور عقد حلف۔ (6) بیہقی نے دلائل میں ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی میرے پاس کتاب ہے جس کو آپ نے عمربن حزم کے لئے تحریر فرمائی جب اس کو یمن کی طرف بھیجا تاکہ وہاں کے رہنے والوں کو دین سکھائیں اور ان کو سنت کے طریقے سکھائیں اور ان سے صدقات کو وصول کریں اور ان کو لکھا لفظ آیت بسم اللہ الرحمن الرحیمیہ کتاب ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے یہ عہد ہے رسول اللہ ﷺ کی طرف سے عمرو بن حزم کے لئے کی تمام میں اسے تقوی کا حکم ہے۔ اور پھر فرمایا اور اس کے لئے یہ حکم ہے جیسا کہ اس کو حکم ہے اس طرح لوگوں سے وہ صدقات وصول کرے لوگوں کو خیر کی بشارت دے۔ حدیث طویل ہے۔ عہد پورا کرنا ضروری ہے (7) حرث بن اسامہ نے اپنی مسند میں عمرو بن شعیب سے وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اپنے حلیفوں کے ساتھ کئے ہوئے وعدے پورے کرو۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا ان کے عقد سے کیا مراد ہے ؟ یا رسول اللہ ! آپ ﷺ نے فرمایا ان کی طرف سے دیت ادا کرو اور ان کی مدد کرنا۔ (8) بیہقی نے شعب الایمان میں مقاتل بن حیان (رح) سے نقل کیا ہم کو اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت یایھا الذین امنوا اوفوا بالعقود کے بارے میں یہ بات پہنچی ہے وعدے پورے کرنے کا مطلب یہ ہے یعنی قرآن میں جو ان سے وعدہ لیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جن کاموں میں اطاعت کا حکم دیا ہے کہ وہ اس پر عمل کریں اور ان کاموں سے بچیں کہ جن سے ان کو روکا گیا تھا۔ اور وہ عہد جو ان کے اور مشرکین کے درمیان ہیں اور پھر ایمان والوں کے باہم معاہدے سب اس میں شامل ہیں۔ (9) طستی نے مسائل میں ابن عباس ؓ سے روایت نقل ہے کہ نافع بن ارزق (رح) نے ابن عباس ؓ سے پوچھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت احلت لکم بھیمۃ الانعام کے بارے میں بتائیے ؟ آپ ؓ نے فرمایا اس سے اونٹ گائے اور بکری مراد ہے عرض کیا گیا عرب کے لوگ اس سے واقف ہیں فرمایا ہاں ! کیا تو نے اعشی کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا۔ لفظ آیت اھل القباب الحمر والنجم المؤثل والقبائل ترجمہ : سرخ خیموں اور مالدار شرفاء چوپاؤں اور قبیلوں والے۔ (10) عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن منذر نے حسن ؓ سے نقل کیا ہے کہ لفظ آیت احلت لکم بھیمۃ الانعام میں اونٹ گائے اور بھیڑ بکریاں مراد ہیں۔ (11) سعید بن منصور، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ جنین کی دم پکڑ کر فرمایا یہ وہ بہیمہ ہے جو تمہارے لئے حلال کردیا گیا ہے۔ (12) ابن جریر نے ابن عمر ؓ نے لفظ آیت احلت لکم بھیمۃ الانعام کے بارے میں فرمایا کہ جو ان کے پیٹوں میں ہے میں نے عرض کیا اگر وہ مرا ہوا نکلے تو میں اس کو کھا لوں ؟ فرمایا ہاں (کھا لو) (13) عبدالرزاق اور عبد بن حمید نے قتادہ ؓ سے لفظ آیت احلت لکم بھیمۃ الانعام کے بارے میں فرمایا کہ سب چوپائے (حلال ہیں) لفظ آیت الا ما یتلی علیکم مگر مردہ اور جس پر اللہ کا نام نہ لیا جائے (وہ حلال نہیں) (14) ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے اور بیہقی نے شعب الایمان میں ابن عباس ؓ سے لفظ آیت احلت لکم بھیمۃ الانعام الا ما یتلی علیکم کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ یعنی لفظ آیت المیتۃ والدم ولحم الخنزیر وما اھل بہ لغیر اللہ آیت کے آخر تک ہے وہ چیزیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے چوپاؤں میں سے حرام فرمایا۔ (15) عبد بن حمید اور ابن منذر نے مجاہد (رح) سے نقل کیا لفظ آیت الا ما یتلی علیکم یعنی وہ مردار اور جو کچھ اس کے ساتھ ذکر کیا گیا (پھر فرمایا) لفظ آیت غیر محلی الصید وانتم حرماسی طرح وہ جانور بھی حرام ہے جسے کوئی قوم محرم آدمی شکار کرے۔ (16) عبد الرزاق اور عبد بن حمید نے ایوب (رح) سے روایت نقل کی کہ مجاہد (رح) سے بندر کے بارے میں پوچھا گیا کیا اس کا گوشت کھایا جائے ؟ انہوں نے فرمایا وہ چوپاؤں میں سے نہیں ہے۔ (17) عبد بن حمید اور ابن جریر، ربیع بن انس نے اس آیت کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ چوپائے سب حلال ہیں مگر اس میں جو وحشی ہو (وہ حلال نہیں) کیونکہ وہ شکار ہے اور وہ حلال نہیں ہے جب وہ احرام میں ہو۔ (18) عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن منذر نے قتادہ ؓ نے لفظ آیت ان اللہ یحکم ما یرید کے بارے میں روایت کیا اللہ تعالیٰ حکم فرماتے ہیں جس چیزکا وہ ارادہ فرماتے ہیں اپنی مخلوق کے بارے میں اور بیان فرمایا انہوں نے اپنے بندوں کے بارے میں ارادہ فرمایا اور اپنے فرائض کو معین فرمایا اور اس کی حدود کو مقرر فرمایا اور اپنی اطاعت کا حکم فرمایا اور اپنی نافرمانی سے روکا۔
Top