Fi-Zilal-al-Quran - Al-Hajj : 32
ذٰلِكَ١ۗ وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ
ذٰلِكَ : یہ وَمَنْ : اور جو يُّعَظِّمْ : تعظیم کرے گا شَعَآئِرَ اللّٰهِ : شعائر اللہ فَاِنَّهَا : تو بیشک یہ مِنْ : سے تَقْوَي : پرہیزگاری الْقُلُوْبِ : جمع قلب (دل)
یہ ہے اصل معاملہ (اسے سمجھ لو) اور جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کا احترام کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے
ذلک ومن یعظم ……البیت العتیق (33) یہاں حاجیوں کی قربانیوں اور دلوں کے تقویٰ کے درمیان تعلق بتایا گیا ہے کہ حج کے تمام شعائر ، تمام مناسک اور تمام حرکات سے بڑا مقصد دلوں کے اندر خدا کا خوف پیدا کرنا ہے۔ بذات خود یہ مناسک اور شعائر کوئی چیز نہیں۔ اصل چیز وہ غرض وغایت ہے جو ان سے حاصل کرنا مطلوب ہے اور وہ یہ ہے کہ انسانوں کا تعلق اللہ تعالیٰ سے پیدا کیا جائے۔ ان شعائر اور مناسک کے اندر وہ یادیں ہیں جن کا تعلق حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور آپ کے بعد کے زمانے سے ہے اور ان کا اصل مقصد اطاعت الٰہی ہے ، توجہ الی اللہ ہے اور جب سے یہ امت پیدا کی گئی اس میں اللہ کی طرف متوجہ ہونے کے دو ہی راستے ہیں : ایک دعا اور دوسرا نماز۔ یہ مویشی جن کے احترام کی بات ہو رہی ہے ، ان کو ایام احرام کے آخر میں ذبح کیا جاتا ہے ، اس عرصہ میں ان کے مالک کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ ان سے نفع اٹھائے۔ اگر اس کو ضرورت ہو تو وہ ان پر سوار بھی ہو سکتا ہے اور اگر ان کے دودھ کی ضرورت ہو تو دودھ بھی استعمال کرسکتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے محل تک پہنچ جائیں اور ان کا مقام بیت عتیق ہے یعنی خانہ کعبہ۔ یہاں پھر ان کو ذبح کیا جائے گا تاکہ لوگ خود بھی کھائیں اور محتاجوں اور فقیروں کو بھی دیں۔ حضور اکرم ﷺ کے دور میں مسلمان قربانی کے جانور اچھے سے اچھا تلاش کرتے تھے۔ موٹا تازہ اور قیمتی ، اس کو وہ تعظیم شعائر اللہ کا حصہ سمجھتے تھے اور خدا خوفی کی وجہ سے وہ ایسا کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے ایک بہترین اونٹنی کو قربانی کے لئے خریدا اور تین سو درہم قیمت ادا کی۔ اس نے کہا حضور میں نے ہدی کی خاطر ایک اونٹنی تین صد روپے میں خریدی ہے تو کیا مجھے اجازت ہے کہ میں اسے فروخت کر کے اس کی جگہ اور اونٹنیاں خریدوں ؟ حضور نے فرمایا نہیں اسی کو ذبح کرو۔ حضرت عمر زیادہ قیمتی اونٹنی کو فروخت کر کے رقم جیب میں رکھنا نہیں چاہتے تھے بلکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ اسے فروخت کردیں اور اس کی جگہ اس رقم سے زیادہ جانور خرید کر ذبح کردیں اور اس کو فروخت کر کے زیادہ اونٹنیاں یا گائے نہ خریدیں۔ اگرچہ اس صورت میں گوشت زیادہ ہوجاتا لیکن شعوری زاویہ سے اور خدا کی راہ میں اچھا مال دینے کے لحاظ سے یہ زیادہ بھاری تھا اور شعوری قیمت کی زیادہ اہمیت ہے۔ فانھا من تقوی القلوب (22 : 32) ” کیونکہ اس کا تعلق دلوں کے خوف سے ہے۔ “ یہ تھا مفہوم اس بات کا جو حضور نے حضرت عمر سے کیہ کہ اسے تبدیل نہ کرو اور اسی کو ذبح کرو۔ یہ مناسک اور شعائر جن کے احترام کا حکم دیا جاتا ہے ، قرآن کریم کہتا ہے کہ یہ تمام اقوام کے ہاں رائج ہیں لیکن اسلام جن شعائر کی قدر کرتا ہے ، انہیں بحال رکھتا ہے اور ان کے احترام کا حکم دیتا ہے ان کا رخ اسلام نے خدا کی طرف موڑ دیا ہے۔
Top